ترک وطن پس منظر کی جرمن آبادی21 ملین ہو گئی
29 جولائی 2020جرمنی کے وفاقی شماریاتی دفتر کے مطابق سن 2019ء میں ترک وطن کا پس منظر رکھنے والے افراد کی تعداد میں تقریبا دو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سن دو ہزار گیارہ کے بعد یہ سب سے زیادہ اور تیز رفتار اضافہ ہے۔
جرمنی میں ہر اُس شخص کو ترک وطن پس منظر کا حامل تصور کیا جاتا ہے، جس کا تعلق خود کسی دوسرے ملک سے ہو یا پھر اس کے والدین میں سے کسی ایک کا تعلق کسی دوسرے ملک سے ہو۔ کئی دیگر ملکوں کی طرح جرمنی میں بھی صرف پیدائش سے شہریت کا حق حاصل نہیں ہوتا لیکن زیادہ تر کیسز میں آٹھ سالہ رہائش کے بعد شہریت حاصل کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ 21.2 ملین میں سے نصف بطور جرمن شہری پیدا ہوئے، اس کا مطلب ہے کہ ان کے والدین میں سے کسی ایک نے ماضی میں جرمن شہریت حاصل کی تھی۔
یورپی مہاجرین اکثریت میں
جرمنی میں ترک وطن کا پس منظر رکھنے والوں میں سے تقریبا 65 فیصد کا تعلق یورپی ممالک سے ہی ہے جبکہ 35 فیصد کا تعلق غیر یورپی ممالک سے ہے۔ ان میں سے 4.6 ملین افراد کا تعلق ایشیائی ممالک سے ہے اور یہ بائیس فیصد بنتے ہیں۔ تقریبا 3.2 ملین ( 15 فیصد) کا تعلق مشرق وسطیٰ سے ہے۔ ایک ملین سے کم یعنی پانچ فیصد تارکین وطن کا پس منظر رکھنے والوں کی جڑیں افریقہ سے جڑی ہیں۔ تقریبا تین فیصد کا تعلق آسٹریلیا، شمالی، وسطی اور جنوبی امریکا سے ہے۔
کون سا ملک سرفہرست؟
اگر صرف ایک ملک کی بات کی جائے تو جرمنی میں تارکین وطن کی سب سے بڑی کمیونٹی کا تعلق ترکی سے ہے۔ ترک وطن کا پس منظر رکھنے والے 13 فیصد افراد کا تعلق اس ملک سے ہے۔ اس کے بعد بالترتیب پولینڈ اور روس کا نمبر آتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
جرمنی میں حصول تعلیم کے لیے سکالرشپس کیسے ملتی ہیں؟
پاکستانی شہریوں کے لیے جرمن ویزے کا حصول کتنا مشکل ہے؟
برطانیہ اور اٹلی کے برعکس جرمنی میں پاکستانی اور پاکستانی نژاد شہریوں کی تعداد کم ہے۔ سن دو ہزار پندرہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد تقریبا پچانوے ہزار بنتی ہے اور ان میں سے اکسٹھ ہزار سے زائد افراد کے پاس پاکستانی شہریت ہے۔ جرمنی میں آباد پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق احمدی فرقے سے ہے۔
جرمنی کو مہاجرین کی اشد ضرورت
جرمن فاؤنڈیشن برائے انضمام اور ہجرت کی سربراہ پیٹرا بینڈل کا کہنا ہے کہ جرمنی کو ابھی بھی مہاجرین کی ضرورت ہے اور ایسا کورونا وبا کے باوجود جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں جرمنی کی کم ہوتی ہوئی آبادی جیسے اہم مسئلے کو مہاجرین کی مدد سے ہی حل کیا گیا تھا۔
حالیہ چند برسوں سے شرح پیدائش میں ہلکے اضافے کے باوجود جرمنی کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں شرح پیدائش اب بھی بہت کم ہے۔ جرمنی میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اس شرح میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا۔
لیکن اس تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ جرمنی میں آباد ہونے والے تارکین وطن اعلی تنخواہ والی ملازمتوں کے حوالے سے جرمن آبادی سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ پیٹرا بینڈل کے مطابق فی الحال تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد گوداموں، کھانے کی پیداوار اور صفائی جیسے شعبوں میں ملازمت کرتی ہے، ''مستقبل میں ہمیں ہنرمند تارکین وطن کی ضرورت ہو گی۔‘‘
ا ا / ع ا (اے پی، اے ایف پی)