تشدد کو قابل سزا جرم قرار دینے کے لیے قانون لانے کا فیصلہ
3 ستمبر 2020عمران خان نے اس حوالے سے ٹوئیٹ میں لکھا کہ ایک مہذب معاشرے میں تشدد ناقابل برداشت ہے: ''یہ اسلام کی روح، ہمارے آئین اور ہماری بین الاقوامی ذمہ داریوں کے بھی منافی ہے۔‘‘
پاکستانی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے 26 جون کو تشدد کے شکار افراد کے عالمی دن کے موقع پر جاری کردہ اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ پاکستانی شہریوں کو تشدد سے بچانے اور ان کے انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے پر کام کر رہی ہیں: ''ہم اس عمل کو قابل سزا جرم قرار دینے کے لیے تندہی سے کام کر رہے ہیں۔‘‘
ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کے جنرل سیکرٹری حارث خلیق کے مطابق وہ حکومتی پالیسیوں کے ناقد رہے ہیں تاہم اس فیصلے کو وہ بے حد سراہتے ہیں: ''جس طرح کا تشدد ہم اپنے سماج میں، اپنے تھانوں میں اور ریاست کی سطح پر دیکھتے ہیں جو سیاسی کارکنوں کے ساتھ اور اگر کچھ لوگ جرائم میں بھی ملوث ہیں ان پر تشدد کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘‘
تاہم انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا کہ قانونی سازی کے بعد اس عملدرآمد بھی کیا جائے۔
سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق خواتین قیدیوں کی جلد رہائی کا حکم
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بدھ دو ستمبر کو ایسی خواتین کی فوری رہائی کا بھی حکم دیا جن کے خلاف مقدمات کی سماعت ابھی جاری ہے۔ عمران خان نے اس حوالے سے اپنی ٹوئیٹ میں لکھا، '' ’’میں نے سپریم کورٹ کے حکم نمبر 299/2020 پر فی الفور عملدرآمد کا حکم دیا ہے جس میں ایسی خواتین قیدیوں کی رہائی شامل ہے جن کے مقدمات زیر سماعت ہیں اور ایسی خواتین قیدیوں کی رہائی کا بھی جو سپریم کورٹ کے جاری کردہ معیار کے تحت آتے ہیں۔‘‘
عمران خان نے اپنی ٹوئیٹ میں مزید لکھا، ''میں نے غیر ملکی خواتین قیدیوں اور ایسی خواتین کے بارے میں بھی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے جو سزائے موت کی منتظر ہیں، تاکہ ان کے معاملے پر انسانی بنیادوں پر غور کیا جا سکے۔‘‘
گزشتہ ہفتے انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے پاکستان جیلوں میں خواتین کی صورتحال اور ان کو درپیش مسائل کے بارے میں وزیر اعظم پاکستان کو ایک جامع رپورٹ پیش کی تھی۔ وزیر اعظم کی طرف سے خواتین قیدیوں کی رہائی کے حکم کے حوالے سے شیریں مزاری نے اپنی ٹوئیٹ میں لکھا، ''قیدیوں کے لیے انسانی حقوق اور انسانی ہمدردی کے حوالے سے یہ ایک زبردست اقدام ہے۔ یہ محض ابتدا ہے۔‘‘
سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق وزیر اعظم پاکستان کے جاری کردہ حکم میں ایسی تمام خواتین کو رہا کرنے کا کہا گیا ہے جو کسی جسمانی یا ذہنی عارضے میں مبتلا ہیں یا جن کی معر 55 برس یا اس سے زائد ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق اور خاص طور پر قیدیوں کے مسائل کے حوالے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم جسٹس پراجیکٹ پاکستان سے منسلک ثنا فرخ نے وزیراعظم کے اس فیصلے کو سراہا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ثنا فرخ نے بتایا، ''اگر مجموعی صورتحال دیکھی جائے تو پاکستانی جیلوں میں قید تمام مرد اور خواتین قیدیوں میں سے قریب 67 فیصد قیدی ایسے ہیں جن کے خلاف مقدمات کی سماعت جاری ہے۔ ‘‘ تاہم ثنا فرخ کا کہنا تھا کہ ان کے ریکارڈ کے مطابق 750 خواتین قیدی ایسی ہیں جنہیں سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کردہ ہدایات کی روشنی میں وزیر اعظم کے اس حکم سے فائدہ پہنچ سکتا ہے۔‘‘