تعز میں انسانی بنیادوں پر فائربندی ہونا چاہیے، اقوام متحدہ
27 جولائی 2016اقوام متحدہ کی جانب سے یہ اپیل ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے، جب سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی فورسز کی فضائی مدد کے ذریعے یمنی حکومت کی حامی فورسز نے ایران نواز شیعہ حوثی باغیوں کے قبضے سے تعز صوبے کے ایک علاقے پر شدید لڑائی کے بعد قبضہ کر لیا ہے۔ ان جھڑپوں ہی کی وجہ سے اقوام متحدہ کی زیرنگرانی امن عمل بھی انتہائی مشکلات کا شکار ہو گیا ہے۔ تعز صوبے میں ہونے والی اس تازہ لڑائی کے بعد حوثی باغیوں نے اقوام متحدہ کی جانب سے پیش کردہ تجاویز پر ردعمل میں تاخیر سے کام لینا شروع کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے دی جانے والی تجاویز میں حوثی باغیوں سے کہا گیا تھا کہ وہ دارالحکومت صنعا سمیت تمام شہری علاقوں سے نکل جائیں، جب کہ یمن میں ایک مخلوط حکومت قائم کی جائے۔
اقوام متحدہ کے انسانی بنیادوں پر امداد کے شعبے کے کوآرڈینیٹر جیمز مک گولڈرِک کا کہنا ہے کہ جنوب مغربی تعز صوبے میں خون ریزی میں اضافے کی وجہ سے صوبائی دارالحکومت تعز اور قریبی علاقے السراری میں عام شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
انہوں نے فریقین سے اپیل کی کہ شہریوں کے تحفظ کے لیے فوری طور پر فائر بندی وقفہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ فریقین امدادی ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کریں، تاکہ متاثرہ علاقوں سے زخمیوں کے انخلا اور جنگ زدہ علاقوں میں خوراک اور ادویات کی فراہمی ممکن ہو سکے۔
مک گولڈرِک نے فریقین کو متبنہ کیا ہے کہ جنگ زدہ علاقوں میں شہریوں کو جان بوجھ کر پھنسائے رکھنا، یرغمال بنانے کے مترادف ہے اور یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔
خیال رہے کہ تعز صوبے کا زیادہ تر حصہ یمنی صدر منصور حادی کی حامی فورسز کے قبضے میں ہے۔ اسی صوبے میں واقعہ تعز شہر یمن کا تیسرا سب سے بڑا شہر ہے، جس کی آبادی تین لاکھ ہے، تاہم حوثی باغیوں نے اس شہر کا تین اطراف سے محاصرہ کر رکھا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق رواں ہفتے صدر منصور حادی کی حامی فورسز نے تعز شہر کے قریبی قصبے السراری پر قبضہ کر لیا ہے۔
اقوام متحدہ کی زیرنگرانی جاری مذاکرات میں حوثی باغیوں کے وفد نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومتی فورسز اسراری قصبے میں جنگی جرائم کی مرتکب ہو رہی ہیں۔