تعلیمی اداروں کو تشدد سے کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟
3 مارچ 2023دوسری طرف تاریخی اہمیت کی حامل پنجاب یونیورسٹی میں پشتون اور پنجاب کونسل کے درمیان جھگڑے میں تقریباً 15 طلبہ شدید زخمی ہوئے اور بدھ کے روز یونیورسٹی کو فوری طور پر بند کرنا پڑا۔ یہ پاکستان کے اعلی تعلیمی اداروں میں طلبہ کے درمیان پرتشدد تصادم کی اکلوتی مثالیں نہیں بلکہ آئے دن ایسے واقعات پیش آتے ہیں۔
انتہائی معمولی باتوں سے شروع ہونے والی یہ لڑائیاں بالعموم تلخ کلامی سے ہوتی ہوئی ڈنڈوں، پتھروں، لاٹھیوں اور اسلحہ تک جا پہنچتی ہیں۔
ایسی لڑائیاں بالعموم اتنی پرتشدد ہوتی ہیں کہ کئی طلبہ ہفتوں ہسپتالوں میں زیر علاج رہتے ہیں اور یہاں تک کہ جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ آخر پاکستان کے تعلیمی ادارے پرتشدد تصادم کی آماجگاہ کب اور کیسے بنے؟ اور نوجوانوں کو پرامن تعلیمی و تربیتی ماحول کیسے فراہم جا سکتا ہے؟ ڈی ڈبلیو اردو نے مختلف ماہرین سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے۔
پاکستان کے تعلیمی ادارے پرتشدد تصادم کی آماجگاہ کیسے بنے؟
تحقیقی ادارے جناح انسٹی ٹیوٹ کی ''اے پولیٹیکل یا ڈی پولیٹیسائز؟ پاکستانی نوجوان اور سیاست‘‘ کے نام سے شائع ہونے والی تحقیق میں تعلیمی اداروں کے اندر تشدد کے کلچر کو سابق ملڑی ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے دور سے جوڑا گیا ہے۔
طلبہ یونینوں کی بحالی کے لیے پاکستان بھر میں طلبہ یکجہتی مارچ
اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق، ”1977ء میں بھٹو کے اقتدار کے خاتمے میں جمعیت پیش پیش تھی، جو بہت جلد بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کی بیخ کنی کے لیے ضیاء الحق کا دست و بازو بن گئی۔ اسی دوران جمعیت کا مسلح ونگ 'تھنڈر سکواڈ‘ وجود میں آیا۔ یہی وہ وقت تھا، جب تعلیمی اداروں میں مخالف گروہوں کے درمیان تصادم پرتشدد سرگرمیوں میں بدلا۔ اس دوران افغان جہاد اور طلبہ کو ریاستی پالیسوں کے لیے بطور پراکسی استعمال کرنے کی روش نے اس تشدد کو مزید فروغ دیا۔ 1982ء سے 1988ء کے دوران 80 سے زائد طالب علم رہنما موت کے گھاٹ اتارے گئے۔"
معروف ترقی پسند یونین رہنما لال خان اپنے مضمون ''یونینز سے کون خوفزدہ ہے‘‘ میں لکھتے ہیں، ”ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایسا ضیاء کے دور میں ہوا، جب کلاشنکوف کلچر اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو طلبہ کی سیاست میں پیوست کیا گیا۔"
جرمن ویزہ میں تاخیر، متعدد پاکستانی طلباء کا مستقبل داؤ پر
دائیں بازو کے مفکر اور اسلامی جمعیت طلبہ کے حوالے سے کئی کتابوں کے مصنف سلیم منصور خالد اگرچہ '’تھنڈر سکواڈ‘‘ کو محض الزام تراشی قرار دیتے ہوئے رد کرتے ہیں مگر اس بات سے متفق نظر آتے ہیں کہ ضیا الحق کے دور میں طلبہ یونین پر پابندی سے تعلیمی اداروں میں تشدد کا عنصر نمایاں طور پر بڑھا۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں پر پابندی تھی، سو وہ اپنا اظہار طلبہ سیاست کے ذریعے کرنے لگیں۔ طلبہ یونین ان کے لیے امید تھی، یہ وہ رخنہ تھی، جس سے سیاسی جماعتیں سانس لینا چاہتی تھیں، ضیاء الحق نے یہ بھی بند کر دیا۔ اس طرح ماحول میں گھٹن بڑھی اور بعد میں تشدد چار گنا بڑھ گیا اور آج بھی تعلیمی اداروں میں ایسے واقعات مسلسل ہو رہے ہیں، طلبہ قتل ہو جاتے ہیں، جو نہایت افسوس ناک اور قابل مذمت ہے۔"
تعلیمی اداروں میں تشدد کلچر کا خاتمہ کیسے؟
معروف سماجی دانشور اور استاد پروفیسر ہود بھائی کہتے ہیں، ”طلبہ کو غیر سیاسی بنانا ایک سیاسی عمل ہے، جس کا مقصد انہیں سوچنے سمجھنے سے محروم کرنا ہے، جو ہماری ریاست کی منشا ہے۔" ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ مزید کہتے ہیں، ”تعلیمی اداروں کا مقصد نوجوانوں کو سوچنے کی تربیت دینا ہے، انہیں مختلف آراء سننے، انہیں برداشت کرنے اور ان کے اظہار کا قرینہ سکھانا ہے۔ جب یہ سب نہیں ہو گا تو وہ نہ دوسرے کی رائے سن سکیں گے اور نہ اپنی رائے درست طریقے سے بیان کر سکیں گے۔ انہیں غیر سیاسی بنانے کے بجائے سیاسی و سماجی شعور دیں، طلبہ یونین بحال کریں۔"
طلبہ یونین پر پابندی سے کون سا تشدد رک گیا؟
معروف ترقی پسند سماجی دانشور عمار علی جان تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے عدم برادشت کا ذمہ دار طلبہ یونینز پر پابندی کو سمجھتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”طلبہ یونین پر پابندی نے تعلیمی اداروں میں تشدد کو پروان چڑھایا۔"
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں،”طلبہ یونین ایک باقاعدہ ڈھانچہ تھا، جس کی بنیاد طلبہ کی رائے تھی۔ ایک طالب رہنما کو منتخب ہونے کے لیے زیادہ سے زیادہ ووٹ درکار ہوتے تھے، بعد میں جیتنے والی تنظیم طلبہ کی نمائندگی کرتے ہوئے اجتماعی آواز بن جاتی تھی۔ جب اس اجتماعی آواز کا گلہ گھونٹ دیا گیا تو بیک وقت چھوٹی چھوٹی آوازیں ابھرنا شروع ہوئیں، سوچ کا افق سکڑ گیا، چھوٹے چھوٹے گروہ ابھرے، جو مسلسل برسرپیکار رہنے لگے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ طلبہ یونین پر پابندی تشدد کا راستہ بند کرنے کے نام پر عائد کی گئی مگر اس سے کون سا تشدد رک گیا، اب بحال کر کے بھی دیکھ لیں۔"
اس حوالے سے سلیم منصور خالد کہتے ہیں، ”طلبہ یونین پاکستان کی سیاسی تربیت گاہ تھی۔ کمزور سہی مگر ایک نظام تھا، جو چلتا رہتا تو آج بہت بہتر ہو چکا ہوتا مگر اس کے خاتمے سے کیا ملا؟ یہ غیر جمہوری اور معاشرے کو اپاہج کرنے کے مترادف ہے۔"
طلبہ کی تقسیم اور ذاتی مفادات
قائد اعظم یونیورسٹی میں جینڈر سٹیڈز ڈیپارٹمنٹ کی سابق سربراہ اور ماہر تعلیم ڈاکٹر فرازانہ باری کہتی ہیں، ”تعلیمی اداروں کی انتظامیہ طلبہ کو تقسیم کر کے اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بناتی ہے، کوئی نہیں چاہتا کہ طلبہ متحد رہیں اور انہیں سوال کر سکیں، چھوٹی چھوٹی شناختیں اوپر بیٹھے ہوئے لوگوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔"
وہ ایک مثال سے ڈی ڈبلیو اردو کو اپنی بات کی وضاحت کرتی ہیں، ”تعلیمی اداروں میں تشدد کی ایک قسم طالبات کو ہراساں کرنا ہے۔ اگر طلبہ متحد ہوں تو ان کا تنظیمی ڈھانچہ ہو گا۔ اس طرح بہت سارے لوگوں کو جواب دہ ہونا پڑے گا۔ کیا وہ ایسا چاہیں گے؟ کبھی نہیں! اس لیے تعلیمی اداروں میں سماجی شعور اور مضبوط تنظیمی ڈھانچے کی حوصلہ افزائی کے بجائے انہیں سختی سے کُچلا جاتا ہے۔"
وہ کہتی ہیں کہ طلبہ یونین کی بحالی، صحت مند ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی، سیاسی و سماجی بحث و مباحثہ اور کتاب کلچر جیسی سرگرمیاں تعلیمی اداروں میں تشدد کی جگہ محبت کے بیج بو سکتی ہیں۔