1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتافریقہ

افریقی ممالک یورپ میں ہی اپنی کرنسیاں کیوں چھاپتے ہیں؟

27 مارچ 2022

آزادی کی کئی دہائیوں بعد بھی کم از کم چالیس افریقی ممالک کی کرنسیاں برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں چھپتی ہیں۔ امیر افریقی ممالک بھی اسی فہرست میں شامل ہیں۔ کیا ایسا کرنا افریقہ کے لیے خطرہ نہیں ہے؟

https://p.dw.com/p/4923M
Kamerun Währung
تصویر: Getty Images/AFP/I. Sanogo

گزشتہ جولائی میں گیمبیا کے ایک وفد نے ہمسایہ ملک نائجیریا کے مرکزی بینک کا دورہ کیا اور درخواست کی کہ وہ انہیں اپنے پاس موجود گیمبیا کی کرنسی دلاسی فراہم کریں تاکہ ملک میں نوٹوں کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔ مسئلہ یہ تھا کہ گیمبیا اپنی ملکی کرنسی خود پرنٹ نہیں کرتا بلکہ اس نے ملکی لیکوئیڈ کرنسی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے برطانیہ کو آرڈر کر رکھا تھا اور اس آرڈر میں ابھی تاخیر تھی۔

اس ملک میں پیدا ہونے والی نوٹوں کی کمی کا یہ معاملہ ملک کی معیشت کے ایک دلچسپ پہلو کو نمایاں کرتا ہے۔ گیمبیا ایک خودمختار ملک ہے لیکن کرنسی کی پیداوار کے حوالے سے اس کا انحصار کسی دوسرے ملک پر ہے۔ کرنسی کسی بھی قوم کی شناخت کا ایک علامتی عنصر ہوتی ہے۔

تاہم گیمبیا اس معاملے میں تنہا نہیں ہے۔ افریقہ کے 54 ممالک میں سے دو تہائی سے زیادہ ملک اس وقت اپنے نوٹ بیرون ملک چھاپتے ہیں، بنیادی طور پر یورپی اور شمالی امریکی ممالک میں۔

برطانوی کرنسی پرنٹنگ کمپنی 'ڈی لا رو‘، سویڈن کی 'کرین اے بی‘ اور جرمنی کی 'گیزیکے پلس ڈیورینٹ‘ ایسی ٹاپ نجی کمپنیوں میں شامل ہیں، جنہوں نے افریقی ممالک کی قومی کرنسیاں پرنٹ کرنے کی معاہدے کر رکھے ہیں۔

یہ بات بہت سے لوگوں کو حیران کر سکتی ہے کہ تقریباﹰ تمام افریقی ممالک اپنی کرنسیاں درآمد کرتے ہیں اور بہت سے لوگوں کے لیے یہ حقیقت قومی فخر اور قومی سلامتی پر سوالات اٹھاتی ہے۔

کسی دوسرے ملک میں پرنٹنگ خطرہ ہے؟

کئی افریقی ماہرین کا کہنا ہے کہ جو ممالک اپنی کرنسیاں خود پرنٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ بدعنوان افسران کا شکار ہو سکتے ہیں یا پھر ہیکروں کا، جو کرنسی کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ ان ماہرین کی رائے میں بہت سے معاملات میں آؤٹ سورسنگ یا غیر ملکی کمپنیوں سے پیسہ پرنٹ کروانا زیادہ محفوظ ہے۔

لیکن نوٹ درآمد کرنے کے حوالے سے بھی کئی چیلنج کا سامنا رہتا ہے۔ سن 2018ء میں سویڈن سے بھیجے گئے لائبیرین ڈالر کے کنٹینرز غائب ہو گئے تھے لیکن بعدازاں اس کی ذمہ داری حکومت پر ہی عائد کی گئی تھی۔ اسی طرح نوٹ ٹرانسفر کرنے کے لیے خصوصی جہاز بک کیے جاتے ہیں اور اس پر بھی کافی زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے۔ 

لیکن اس کے باوجود 'ڈی لا رو‘ جیسی کمپنیاں سینکڑوں برسوں سے موجود ہیں اور دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کے لیے بڑے پیمانے پر نوٹ چھاپتی ہیں۔ ان کے پاس پولیمر جیسی کرنسی کی اختراعات کے لیے ٹولز اور تجربہ ہے۔ مثال کے طور پر اب گھانا اپنے مرکزی بینک کی ڈیجیٹل کرنسی (سی بی ڈی سی) تیار کرنے کے لیے جرمنی کی کمپنی 'گیزیکے پلس ڈیورینٹ‘ کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔ 

یہ فرمیں اضافی طور پر قومی پاسپورٹ اور دیگر شناختی دستاویزات بھی تیار کرتی ہیں اور ان کمپنیوں کی سکیورٹی انتہائی زیادہ ہوتی ہے تاکہ ہیکرز وغیرہ سے محفوظ رہ سکیں۔ علاوہ ازیں ان کے مقامات بھی نامعلوم ہوتے ہیں کہ نوٹ کس جگہ پرنٹ کیے جاتے ہیں۔ واٹر مارکس، تصاویر اور دیگر مشکل نقاشی، جو بینک نوٹوں میں عام طور پر ہوتے ہیں، کا مرحلہ انتہائی پیچیدہ اور مہنگا ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ جیسے جیسے دنیا نئی کیش لیس ٹیکنالوجیز کی طرف بڑھ رہی ہے، ویسے ہی متعدد ممالک کے لیے پیداواری لاگت اٹھانا بے معنی ہوتا جا رہا ہے۔ نئے بینک نوٹوں کی مانگ میں کمی نے ڈنمارک کو بھی 2014ء میں آؤٹ سورسنگ پر جانے پر مجبور کر دیا تھا اور اب یہ یورپی ملک بھی ایک دوسرے ملک میں نوٹ چھپواتا ہے۔

لیکن کسی دوسرے ملک میں نوٹ پرنٹ کروانے کے نقصانات بھی ہیں۔ کچھ حکومتیں دوسرے ممالک پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے اسے بطور ہتھیار استعمال کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر اقوام متحدہ کی طرف سے لیبیا کے سابق حکمران معمر قذافی پر پابندیوں کے بعد برطانیہ نے 'ڈی لا رو‘ کو لیبیائی دینار پرنٹ کرنے سے روک دیا تھا۔

کئی افریقی ممالک اس منصوبے پر بھی کام کر رہے ہیں کہ افریقی ممالک کی کرنسی اسی براعظم میں پرنٹ کی جائے لیکن افریقی ممالک آپس میں ایک دوسرے پر اس حوالے سے کم ہی اعتبار کرتے ہیں۔ ان ممالک کو بیرون ملک بیٹھی کمپنیوں پر اعتبار زیادہ ہو چکا ہے۔

شولا لاول ( ا ا / ع آ )