’’تمباکو نوشی نہ کرنے والے کو بوسہ دو، فرق سے لُطف اندوز ہو‘‘
4 فروری 2014آج چار جنوری کو کینسر یعنی سرطان کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ سال کے آغاز میں ہی اس دن کو منانے کا خیال اس لحاظ سے اچھا تصور کیا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ سال شروع ہونے سے پہلے ہی نئے سال کے لیے مثبت تبدیلیوں کے ساتھ اپنی روز مرہ زندگی سے متعلق نئے اہداف طے کر لیتے ہیں اور سال کے آغاز سے ہی اُس پر عمل درآمد کا فیصلہ کرتے ہیں۔ سرطان کے موذی عارضے کا سبب بننے والی چند عادات کے بارے میں اکثر وبیشتر لوگوں کو پتہ ہوتا ہے، لیکن اس بات کا علم رکھنے والے اس حقیقت کو جاننے کے بعد بھی کینسر جیسے موذی مرض سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر نہیں کرتے۔
دنیا بھر میں انسانوں کی جان لینے والی چار سب سے بڑی عادات ہیں تمباکو نوشی، الکوحل کا استعمال، موٹاپا اور جسمانی حرکت یعنی ورزش کی کمی۔ ان سے بچنا اتنا ہی ضروری ہے مگر حقیقت میں اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ جرمنی میں ہر چوتھا بالغ فرد تمباکو نوشی کرتا ہے۔ ان افراد مں سے نصف سے زیادہ موٹاپے کا شکار ہیں۔ ساڑھے نو ملین افراد اُس مقدار سے زیادہ شراب پیتے ہیں جسے انسانی صحت کے لیے محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
’’کسی بات سے آگاہ ہونے اور اُس کے مطابق عمل کرنے میں فرق ہے۔ ہم بس وہ کرتے ہیں جس سے ہمیں خوشگوار احساس ہوتا ہے، جو ہمیں اچھا لگتا ہے۔‘‘ یہ کہنا ہے بون یونیورسٹی کی نفسیاتی طب اور نفسیاتی علاج کے کلینک کی سربراہ فرانسسکا گائزر کا۔ فرانسسکا کے بقول ہماری عادات کو ہماری عقل و فہم نہیں بلکہ ہمارا تجربہ کنٹرول کرتا ہے۔ ہم زیادہ تر اپنی جذباتی یادداشت کے مطابق عمل کرتے ہیں۔
سرطان سے متعلق اعداد وشمار زیادہ مثاثر کُن نہیں ہوتے
ماہرین کے مطابق ہم جو کچھ اخباروں میں پڑھتے ہیں اُس کا اثر تھوڑی دیر میں ختم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سرطان سے متعلق اعداد وشمار کے بارے میں جان لینے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کے باعث لوگ اپنی عادات تبدیل کر لیں۔ عادات کی تبدیلی کا دارو مدار تجربے پر ہوتا ہے۔
دنیا بھر میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جو وہی کچھ کھاتے رہتے ہیں جو بچپن میں انہیں اُن کی ماں نے کھلایا ہوتا ہے، یہ سوچے بغیر کے یہ غذا کس حدتک صحت بخش ہے۔ اسی طرح بچے اور نوجوان سگریٹ اس لیے پیتے ہیں کہ ان کے ماں یا باپ کو انہوں نے یہ کرتے دیکھا ہے یا پھر اس لیے کہ ان کے دیگر دوست احباب بھی سگریٹ پیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے انہیں ایک اچھا سا احساس ہوتا ہے۔
برلن میں قائم تعلیمی تحقیق کے ادارے ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ سے منسلک ایک ماہر نفسیات گیرڈ گیگرنسر کہتے ہیں، ’’میں کسی ایک بھی ایسے شخص کو نہیں جانتا جس نے پہلا سگریٹ اس لیے پیا ہو کہ اُسے اس کا ذائقہ پسند آیا۔ بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سگریٹ نہایت بد ذائقہ چیز ہے۔ تاہم ہر کوئی سگریٹ نوشی اس لیے کر تا ہے کہ دوسرے بھی سگریٹ پی رہے ہوتے ہیں۔‘‘
مثبت تنبیہ زیادہ مؤثر
بہت سے افراد، خاص طور سے نوجوان اس دلیل کو نہیں ماننا چاہتے کہ تمباکو نوشی کرنے والے جلد اس دنیا سے رُخصت ہو جاتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے کے سوشل نیٹ ورک فیس بُک پر کسی نے اس بارے میں ایک دلچسپ پیغام تحریر کیا۔ جو کچھ یوں تھا، ’’لغو، بکواس، میری ایک آنٹی نے سینکڑوں سگریٹ پیے ہوں گے اور اُن کا انتقال 106 برس کی عمر میں ہوا۔‘‘
جرمنی میں اس حوالے سے ایک معروف شخصیت کی مثال بھی بہت زیادہ دی جاتی ہے۔ سابق جرمن چانسلر ہلموٹ شمٹ حالی ہی میں 95 برس کے ہوگئے ہیں اور وہ ’چین اسموکر‘ ہیں۔
جرمن شہر ہائیڈلبرگ میں قائم کینسر ریسرچ سینٹر کے ایک محقق روڈولف کاکس کا کہنا ہے کہ کینسر یا سرطان کے مرض کے بارے میں ایسا ہی ہے، یہ سچ ہے کہ پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا مریضوں میں سے 90 فیصد کی اس بیماری کی وجہ تمباکو نوشی ہوتی ہے تاہم ضروری نہیں کہ تمباکو نوشی کرنے والا اور زیادہ وزن کا حامل ہر شخص اس مرض کا شکار ہو۔ روڈولف کے بقول تمباکو نوشی کرنے والا ہر چھٹا شخص کینسر کے موذی عارضے کا شکار ہوتا ہے۔ ماہرین نفسیات اور سماجی امور کےماہرین کا خیال ہے کہ کینسر کے پھیلاؤ کی ذمہ داری معاشرے پر عائد ہوتی ہے کیونکہ زیادہ تر افراد دیدہ و دانستہ اپنی صحت کے ساتھ دشمنی کر رہے ہوتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق نوجوانوں میں شعور بیدار کرنے اور اُنہیں کم عمری میں یہ بتایا جانا چاہیے کہ کون کون سے عوامل زندگی کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہوتے ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں مثبت انداز کی تنبیہ کافی زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آسٹریلیا کی کینسر سوسائٹی نے ایک اسٹیکر تیار کیا جسے گاڑیوں وغیرہ پر چسپاں کیا جا سکتا ہے۔ اس اسٹیکر پر درج ہے، ’’تمباکو نوشی نہ کرنے والے کو بوسہ دو، فرق سے لُطف اندوز ہو‘‘۔ اس اشتہار میں داراصل تمباکو کی اُس بوُ کی طرف اشارہ ہے جو ہر جگہ بس جاتی ہے۔