تمباکو کے باعث پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ ہلاکتیں
31 مئی 2017پاکستان کا شمار دنیا کے ان 15 ممالک میں ہوتا ہے، جہاں تمباکو کی پیداوار اور استعمال سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر قیصر سجاد کے مطابق تمباکو نوشی سالانہ بڑی تعداد میں لوگوں کی ہلاکت کا باعث بنتی ہے، ’’تقریباً ایک لاکھ سے زائد افراد ہر سال تمباکو کھانے سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں،جن میں کینسر سرفہرست ہے، مبتلا ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ان میں منہ، حلق، سانس کی نالی اور پھیپھڑوں کا سرطان شامل ہے۔ جبکہ جو لوگ چھالیہ یا پان کے ساتھ تمباکو لینے کے عادی ہیں، ان میں منہ،کھانے کی نالی اور معدے کے سرطان کی بیماریاں سب سے زیادہ نظر آتی ہیں۔‘‘
کراچی کے آغا خان ہسپتال میں میڈیسن کے پروفیسر اور نیشنل الائنس فار ٹوبیکو کنٹرول کے چیئرمین ڈاکٹر جاوید خان کے مطابق ملک میں کسی نہ کسی شکل میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے، ’’ایک تحقیق کے مطابق ملک بھر کی تقریباً 32 فیصد بالغ مردانہ آبادی سگریٹ نوشی کرتی ہے۔ جبکہ سگریٹ نوش بالغ خواتین، آبادی کا کُل آٹھ فیصد ہیں۔ اگر ہم تمباکو کے استعمال کو پان، چھالیہ، گٹکے یا نسوار کے ساتھ دیکھیں تو ملک کی تقریباﹰ 54 فیصد آبادی اس لت میں مبتلا ہے۔‘‘
تمباکو نوشی صرف سگریٹ کی شکل میں نہیں کی جاتی ہے۔ شیشہ پینا بھی تمباکو نوشی کی ہی ایک شکل ہے جو بدقسمتی سے نوجوانوں کو سب سے زیادہ متوجہ کر رہی ہے۔ ڈاکٹر جاوید خان کے مطابق شیشہ پینے والے افراد اس سے بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ فلٹر کرنے کے باوجود وہ تمباکو کو خطرناک آکسیڈنٹس کی صورت میں اپنے جسم میں داخل کر رہے ہیں، ’’جتنے بھی عالمی سطح پر ماہرین صحت ہیں، انہوں نے شیشہ نوشی پر ہونے والی دو بڑی کانفرنس میں اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ایک گھنٹہ شیشہ پینا، 200 سگریٹ پینے کے برابر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سگریٹ تین سے پانچ منٹ میں ختم ہو جاتی ہے جبکہ شیشہ پینے کا سیشن تقریباً پینتالیس منٹ سے ایک گھنٹے نوجوانوں کے درمیان چلتا رہتا ہے۔ جس میں کئی لٹر ٹاکسک پھیپھڑوں میں جذب ہو جاتی ہے، لہذاہ شیشے کے استعمال کی حوصلہ شکنی ضرور کرنی چاہیے۔‘‘
کیا سگریٹ چھوڑنا ممکن ہے؟
ڈاکٹر جاوید خان کے مطابق تمباکو نوشی چھوڑنا مشکل ضرور ہے، ناممکن نہیں۔ اس سے چھٹکارا پانے کے لیے چند دواؤں اور مضبوظ قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے، ’’سگریٹ چھوڑنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ ایک دن کا انتخاب کر لیا جائے کہ اس دن سے سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ اس کے بعد سگریٹ کا نشہ چھوڑتے ہوئے جو علامات ظاہر ہوتی ہیں، ان پر قابو پانے کے لیے دوائیں موجود ہیں جو کہ بہت زیادہ مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ بڑی بیماری میں مبتلا ہونے سے قبل ہی اس سے بچنے کی تدبیر کی جائے۔‘‘
واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے ملکی سطح پر سگریٹ نوشی یا تمباکو نوشی پر قابو پانے کے لیے سن 2012ء میں ایک ایکٹ لاگو کیا گیا تھا جس کے مطابق کھُلی جگہ یا پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی ممنوع قرار دی گئی ہے۔ اس قانون پر مکمل طور پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آتا، تاہم اس پر قابو پانے کے لیے حکومت کی جانب سے ایک بار پھر اقدامات کیے جا رہے ہیں اور اس بار ان کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے تاکہ یہ کم سے کم لوگوں کی قوت خرید میں ہوں۔ اس مقصد کے لیے موجودہ حکومت نے سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کر دیا ہے اورفنانس بل کی پارلیمنٹ سے منظوری سے پہلے ہی سگریٹ پر فیڈرل ایکسائزڈیوٹی میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔
ایف بی آر کے مطابق ایک ہزار سگریٹس کے پیکٹ پر تین ہزار سات سو چالیس روپے تک ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔ جبکہ پرنٹڈ قیمت دو ہزار نو سو پچیس روپے سے زیادہ ہونے پر ایک ہزار ستر روپے ٹیکس عائد ہوگا۔