تنازعات کے شکار ملک کانگو میں چاکلیٹ سازی
جمہوریہ کانگو مختلف پرتشدد تنازعات کا شکار ملک ہے۔ اس ملک میں مقامی چاکلیٹ انڈسٹری کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ جنگ زدہ علاقے شمالی کیوُو میں چاکلیٹ ہاتھ سے تیار کی جاتی ہے۔
بینی علاقے کے کوکو بیج
اس تصویر میں ایڈل گیوٹ اور میتھیو چیمبرز بینی علاقے سے لائے گئے کوکو بیج کا معائنہ کرتے ہوئے ان کے معیار کو پرکھ رہے ہیں۔ بینی کا علاقہ کانگو چاکلیٹ کمپنی کے صدر دفتر سے ساڑھے تین سو کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ اس ابتدائی پڑتال کے بعد ہی چاکلیٹ سازی کا عمل شروع کیا جاتا ہے۔
کوکو بیج کی فراہمی میں مشکلات
بینی علاقے سے کوکویا کاکاؤ بیج کی فراہمی میں بسا اوقات تاخیر ہو جاتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ طویل فاصلہ اور جنگلاتی سڑک ہے، جو گڑھوں کے ساتھ ساتھ کیچڑ سے بھری رہتی ہے۔ اس کے علاوہ مسلح ملیشیا کے حملوں کا بھی خطرہ رہتا ہے۔
ذاتی تجربے سے چاکلیٹ بنانے والے
چاکلیٹ سازی میں شریک خاتون ایڈل گیوٹ کیمرون میں پروان چڑھیں اور پھر کینیا میں تعلیم حاصل کرتی رہیں۔ وہ کانگو لوٹ کر مقامی خواتین کو عملی میدان میں حصہ لینے کی ترغیب دیتے ہوئے اُن کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گیوٹ نے چاکلیٹ سازی کا علم ذاتی مطالعے سے حاصل کیا ہے۔
ہاتھ سے بنائی گئی چاکلیٹ
کوکو کانگو کمپنی میں کام کرنے والی خواتین چھوٹے چھوٹے چولہوں پر چاکلیٹس کو پگھلا کر اُن کو مناسب ٹکڑوں میں تقسیم کرتی ہیں۔ اس کمپنی کو قائم ہوئے صرف تین ماہ ہوئے ہیں لیکن یہ اگلے مہینوں میں اپنی پروڈکشن میں غیرمعمولی اضافہ کرنے کیا عزم رکھتی ہے۔
سو فیصد ساختہ کانگو
کوکو کمپنی میں میمی سمیئرز کُل دس ملازمین میں سے ایک ہیں۔ اُس کے لیے یہ ایک ناقابل یقین بات ہے کہ وہ سو فیصد میڈ اِن کانگو چاکلیٹ تیار کرتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کانگو میں غربت اور نامساعد حالات کی وجہ سے چاکلیٹ خریدنا انتہائی مشکل ہے۔ میمی سمیئرز کا کہنا ہے کہ اُس نے صرف ٹیلی وژن پر لوگوں کو چاکلیٹ کھاتے دیکھا تھا لیکن اس کمپنی کی وجہ سے اُس کے پانچ بچوں کو چاکلیٹ کی دستیابی ہوئی ہے۔
خوبصوہرت پیکنگ
کوکو کانگو نے اپنی چاکلیٹ کے لیے خاص طور پر دلفریب اور خوبصورت پیکنگ کو فوقیت دے رکھی ہے۔ اس پبیکنگ کی ڈیزائنگ گوما شہر سے کرائی گئی ہے۔ اس کمپنی کی پچاس گرام کی تین بارز کی قیمت قریب بیس ڈالر ہے۔ اس کمپنی کا یہ بھی کہنا ہے کہ فی الحال اس چاکلیٹ کو ایکسپورٹ کرنے کے بجائے پوری طرح مقامی منڈیوں میں کھپایا جا رہا ہے۔
ایک پرخطر کاروبار
جنگ زدہ علاقے بینی کے کسانوں کو اپنے خطرناک حالات کا احساس ہے اور وہ اس کی کاشت کو ایک خطرناک فعل قرار دیتے ہیں۔ ایسے کسانوں میں ایک خاتون سلوی کروسہنگوا زوادی ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے علاوہ اغوا کی وارداتیں بھی عام ہیں۔ بظاہر یہ علاقہ مسلح ملیشیا کے رحم و کرم پر ہے۔ اس علاقے میں حکومت بھی سکیورٹی صورت حال کو بہتر بنانے کی کوشش میں ہے۔