توہینِ مذہب پر انڈونیشی گورنر کے خلاف عدالتی کارروائی شروع
13 دسمبر 2016انڈونیشی دارالحکومت جکارتہ کی ایک عدالت میں گورنر بیسوکی تجہاجا پورنما عرف آہوک نے مسلمان انتہا پسندوں کی جانب سے عائد توہین مذہب کے الزامات سے کلی طور پر انکار کر دیا ہے۔ اس انکار کے وقت، وہ اتنے جذباتی ہوئے کہ اُن کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے اور آواز رُندھ گئی۔
رواں برس ستمبر میں جکارتہ کے گورنر نے کہا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران اُن کے مخالفین نے قران کی ایک آیت کا غلط استعمال کر کے ووٹرز کو دھوکا دینے کی کوشش کی ہے۔ انتہا پسند مسلمان علماء نے مسیحی گورنر کا یہ بیان توہین مذہب کے زمرے میں ڈال کر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ اگر اُن کے مخالف وکلاء اِس الزام کو درست ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے تو انہیں قید سزا کا حکم سنایا جا سکتا ہے۔
عدالت میں استغاثہ کی جانب سے توہین مذہب کے مبینہ الزام کی پیش کردہ تفصیلات کے جواب میں چینی نژاد مسیحی سیاستدان پورنما نے کہا:’’میں اس الزام کو سمجھ رہا ہوں لیکن ایسا کیا غلط میں نے کہا ہے جو توہین مذہب ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ جو کچھ انہوں نے تھاؤزند آئلینڈز میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا وہ واضح طور پر قران کی کسی آیت کی تشریح نہیں تھی اور اِس سے علماء یا قران کی توہین بھی مقصود نہیں تھی۔
پورنما گزشتہ پچاس برسوں میں منتخب ہونے والے جکارتہ کے پہلے غیر مسلم گورنر ہیں اور وہ دوسری مدت کے لیے گورنری کے انتخاب میں شریک ہیں۔
اسی دوران سابق صدر سوسیلو بامبانگ یدھویونو کے بیٹے نے پولیس سےآہوک کے بیان کے حوالے سے اپنا تفتیشی عمل شروع کرنے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ سابق صدر کے صاحبزادے بھی جکارتہ کی گورنری کے الیکشن کے ایک امیدوار ہیں۔ گورنرشپ کا الیکشن اگلے برس پندرہ فروری کو ہو گا۔
انڈونیشی قانون کے مطابق توہین مذہب کا ارتکاب کرنےکا جرم ثابت ہونے پر کم از کم پانچ برس کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔ دریں اثنا موجودہ سیاسی افراتفری کے نتیجے میں جکارتہ حکومت نے کئی ایسی ویب سائٹس پر پابندی عائد کر دی ہے جو مذہبی بےچینی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی و سماجی انتشار پھیلانے کی مرتکب ہو رہی تھیں۔