خوشاب میں توہین رسالت کے الزام پر قتل کا دوسرا رخ بھی ہے
5 نومبر 2020نیشنل بینک آف پاکستان کی قائد آباد، خوشاب، میں واقع برانچ پر کل بروز بدھ صبح تقریباﹰ ساڑھے آٹھ بجے کے قریب احمد نواز نامی سکیورٹی گارڈ نے اپنے بینک مینیجر عمران حنیف پر فائرنگ کی، جس سے وہ شدید زخمی ہوئے اور بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لا سکے اور چل بسے۔ فائرنگ کے بعد وہ وہاں ایک مجمع اکھٹا ہوگیا اور سکیورٹی گارڈ نے وہاں موجود لوگوں کو یہ بتایا کہ بینک مینیجر گستاخ رسول تھا۔ اس موقع پر لوگوں نے سکیورٹی گارڈ کے حق میں نعرے بھی لگائے اور سکیورٹی گارڈ بھی اس نعرے بازی میں شامل تھا۔
تصویر کا دوسرا رخ:
متعلقہ تھانے کے ڈی ایس پی ملک غلام رسول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس معاملے میں ابھی تفتیش چل رہی ہے اور علما کی ایک کمیٹی بھی بنا دی گئی ہے، جس میں مقامی ایم پی اے بھی شامل ہیں۔ اب تک کی تفتیش کے مطابق بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ ذاتی عناد کا معاملہ تھا اور مقتول و قاتل میں مذہبی معاملات پر بحث بھی چل رہی تھی اور قاتل کے مقتول سے کچھ دفتری معاملات میں اختلافات بھی تھے۔‘‘
مقامی پولیس کے کچھ اور اہلکاروں نے بھی ڈی ایس پی کے اس نقطہ نظر کی تائید کی۔ متعلقہ علاقے کے ایک رہائشی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ قاتل کا یہ دعوی کہ یہ ایک مذہبی معاملہ ہے بالکل جھوٹا ہے۔ مقتول کا خود اپنا لڑکیوں کا مدرسہ تھا جب کہ وہ دیگر مدارس کو چندہ بھی دیتا تھا۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس نے گستاخی کی ہو۔ دراصل مقتول نے اس سکیورٹی گارڈ کا تبادلہ کرایا تھا لیکن یہ پھر اسی بینک میں معافی تلافی کے بعد آگیا تھا۔ اب اس نے دوبارہ اس کے تبادلے کی درخواست دی تھی اور قاتل نے اس کو قتل کر دیا۔‘‘
جھوٹے الزام پر سخت سزا کا مطالبہ:
انسانی حقوق کی تنطیموں اور سول سوسائٹی کا دعوی ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب اور توہین رسالت کے بہت سارے مقدمات میں ذاتی عناد کے عنصر کا بھی دخل ہوتا ہے۔ کچھ برسوں پہلے اسلام آباد کی رہائشی ایک ذہنی طور پر معذور نا بالغ لڑکی رمشا مسیح پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا، جو بعد میں جھوٹا ثابت ہوا۔ اس وقت بھی ملک کے کئی حلقے جھوٹے الزام لگانے والوں کے لیے سزا کا مطالبہ کر رہے تھے اور اب اس واقع کے بعد اس مطالبے کی شدت تیز ہوتی جارہی ہے۔
اس قتل کی مذمت معروف عالم علامہ طاہر اشرفی نے بھی کی۔ طاہر اشرفی نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا،’’قائد آباد میں گستاخ رسول کہہ کر ایک انسان کو قتل کیا گیا۔ ریاست پاکستان کسی کو بھی اس طرح کی دہشت گردی اور وحشت نہیں پھیلانے دے گی۔‘‘ ماضی میں لال مسجد سے وابستہ رہنے والی شہداء فاؤنڈیشن نے بھی اس قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ اس فاؤنڈیشن سے وابستہ حافظ احتشام نے مطالبہ کیا کہ قاتل پر فوری مقدمہ چلایا جائے اور اسے سرعام سزائے موت دی جائے۔
نفرت انگیز تقاریر:
سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر سختی سے عمل کیا جائے اور ایسے عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے، جو مذاہب اور مسالک کے نام پر نفرتیں پھیلا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن سے وابستہ اسد بٹ کا کہنا ہے کہ ریاست کو ایسے عناصر کا قلع قمع کرنا چاہیے۔''کئی نام نہاد علما مذہب، فرقے اور مسالک کے نام پر نفرتیں پھیلا رہے ہیں لیکن ریاست صرف نظر کر رہی ہے۔ انتہا پسندوں کے حوالے سے اس کی پالیسی اب بھی سخت نہیں ہے۔ یہ انتہا پسند اشتعال انگیز تقریریں کر کے نہ صرف غیر مسلم پاکستانیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں بلکہ ان کے شر سے کوئی بھی پاکستانی محفوظ نہیں ہے۔ لہذا ریاست کو چاہیے کہ وہ ان شر پسند عناصر پر نظر رکھیں۔ لاؤڈ اسپیکر اور مساجد کے خطبوں میں جو نفرت انگیز تقریریں کرتے ہیں، ان کے خلاف سخت اقدامات کرے۔‘‘
تحریک لبیک کا موقف:
تحریک لبیک پاکستان اسلام آباد کے رہنما رضوان سیفی کا کہنا ہے کہ ابھی تک کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے کہ یہ توہین رسالت کا معاملہ ہی تھا یا نہیں،''ہمارا یہ کہنا ہے کہ اگر یہ واقعی توہین رسالت کا معاملہ ہے اور قتل ہونے والے نے گستاخی کی تھی، تو ہم اس اقدام کو سراہتے ہیں لیکن اگر قاتل نے جھوٹا الزام لگایا اور ایک بے گناہ کو قتل کیا تو ہم قانون نافذ کرنے والوں کے ساتھ ہوں گے۔ ہمارے خیال میں جھوٹے الزام لگانے والے کے لیے سخت سے سخت سزا ہونی چاہیے۔‘‘