بھارتی مسلمانوں نے ہندو کے قاتلوں کو سخت سزا کا مطالبہ کیا
29 جون 2022ہندو قوم پرست حکمراں جماعت کی رہنما اور معطل ترجمان نوپور شرما کی جانب سے ایک ٹی وی مباحثے میں پیغمبر اسلام کے خلاف مبینہ اہانت آمیز بیانات سے پیدا کشیدہ حالات نے منگل کے روز ایک نیا رخ لے لیا۔
ریاست راجستھان کے اودے پور میں دو مسلم نوجوانوں نے ایک ہندو درزی کو قتل کرنے کے بعد اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈال دی۔ پولیس نے بتایا کہ دونوں ملزمین غوث محمد اور محمد ریاض کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مقتول کی شناخت کنہیا لال کے طور پر ہوئی ہے۔
مسلم جماعتو ں کی طرف سے مذمت
بھارت کی تقریباً تمام اہم مسلم تنظیموں اور جماعتوں نیز معروف شخصیات نے توہین رسالت کے نام پر ایک ہندو کے قتل کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انہوں نے قصورواروں کو فوراً اور سخت ترین سزا دینے کا مطالبہ بھی کیا۔ انہوں نے تمام شہریوں سے اپنے جذبات پر قابو رکھنے اور ملک میں امن و امان برقرار رکھنے کی بھی اپیل کی۔
’قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا جا سکتا‘
آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ نوپور شرما نے پیغمبر اسلام کے متعلق جو باتیں کہی تھیں وہ انتہائی افسوس ناک ہیں اور اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنا مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ لیکن اس کے باوجود "قانون کو ہاتھ میں لینا اور کسی شخص کو خود قصوروار قرار دے کر قتل کر دینا انتہائی قابل مذمت ہے، نہ تو قانون اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی اسلامی شریعت اس کو جائز ٹھہراتی ہے۔"
جمعیت علمائے ہند نے اپنے بیان میں کہا، "اس واقعہ کو کسی بھی طریقے سے درست نہیں ٹھہرایا جا سکتا، یہ ملک کے قانون اور ہمارے مذہب کے خلاف ہے۔ ہمارے ملک میں قانون کی حکمرانی ہے، کسی شخص کو ذاتی طور پر قانون کو ہاتھ میں لینے کا ہر گز ہرگز اختیار نہیں ہے۔"
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے اپنے بیان میں کہا کہ جو لوگ پیغمبر اسلام سے محبت کا دعوی کرکے ایسے جرائم میں ملوث ہو رہے ہیں انہیں قانون کے مطابق سخت ترین سزائیں دی جانی چاہییں۔ اودے پور کا واقعہ غیر اسلامی ہے اور منافرت آمیز تقریروں کا نتیجہ ہے۔
سماج میں تشدد کی کوئی جگہ نہیں، اویسی
رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے اودے پور واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سماج میں تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، جنہوں نے یہ کیا ہے ان کے خلاف قانون کے تحت سخت کارروائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات میں ملوث ہر شخص کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔
سماجی کارکن ڈاکٹر تسلیم رحمانی کا کہنا تھا، "ایک مہذب سماج میں اس طرح کی حرکت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ حکومت کو فاسٹ ٹریک عدالت میں اس کا مقدمہ چلانا چاہیے اور قصورواروں کو سرعام پھانسی دی جانی چاہیے۔"
قتل کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش
مقتول کہنیا لال نے پیغمبر اسلام کے خلاف اہانت آمیز تبصرہ کرنے والی بی جے پی کی معطل ترجمان نوپور شرما کی حمایت میں سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھی۔ اس بیان کے لیے کنہیا لال کو 10 جون کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ جب 15 جون کو انہیں ضمانت پر رہا کیا گیا تو انہوں نے پولیس کو بتایا کہ پڑوسیوں کی جانب سے انہیں دھمکیاں مل رہی ہیں۔
اودے پور کے سپرنٹنڈنٹ پولیس کا کہنا ہے کہ مقامی حکام نے اس کے بعد فریقین کو تھانے میں بلا کر سمجھایا بجھایا اور کہا کہ معاملہ حل ہو گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کنہیا لال کی شکایت پر توجہ نہیں دینے کے لیے ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر کو معطل کر دیا گیا ہے۔
کئی علاقوں میں کرفیو
اس واردات کے بعد اودے پور میں حالات کشیدہ ہو گئے۔ کئی مقامات پر آتش زنی کے واقعات پیش آئے۔ انتظامیہ نے انٹرنیٹ سروس پر پابندی اور کئی علاقوں میں کرفیو لگا دیا گیا۔ راجستھان کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں بالخصوص حساس علاقوں میں سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ نے اس بہیمانہ قتل کے واقعے کی قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) سے انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ وزارت داخلہ نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''اس واقعے میں کسی تنظیم کے ملوث ہونے یا بین الاقوامی رابطے کی بھی تفصیلی جانچ کی جائے گی۔‘‘
راجستھان میں کانگریس کی قیادت والی ریاستی حکومت نے بھی خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دے دی ہے۔ ایس آئی ٹی کے سربراہ پرفل کمار نے کہا،"ہم یہ بھی جانچ کر رہے ہیں کہ آیا یہ دہشت گردی کا واقعہ تو نہیں ہے۔"
مذہبی منافرت کا نتیجہ
بیشتر ہندووں کا خیال ہے یہ بھارتی سماج میں منظم انداز میں پھیلائی جانے والی مذہبی منافرت کا نتیجہ ہے۔ اجے تیواری نامی ایک شخص نے سوشل میڈیا پر لکھا، "چھ گھنٹے میں ملزم گرفتار، فاسٹ ٹریک کورٹ میں کیس، جرم کے خلاف مذہبی رہنماؤں سے لے کر عام مسلمانوں تک کا سخت ردعمل۔ متاثرہ خاندان کو 31 لاکھ روپے کا معاوضہ، دو افراد کو ملازمت۔ کاش یہی فرقہ وارانہ تشدد کے ہر کیس میں ہوا ہوتا۔ کاش مجرموں کو ہیرو بنا کر جلوس نہ نکالا گیا ہوتا، قانون نے اپنا کام کیا ہوتا تو ملک کتنی بہتر حالت میں ہوتا۔ہمیں دھرم دیکھے بغیر ہر قاتل کو کھل کر قاتل کہنا چاہیے۔"
ایک محتاط اندازے کے مطابق سن 2014 سے سن 2020کے درمیان بھارت میں سر عام قتل کرنے کے 400 سے زائد واقعات پیش آئے۔ ان میں ہلاک کیے جانے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔