1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

توہین مذہب، ایک اور شخص قتل، قاتل تین برقعہ پوش خواتین

عابد حسین
20 اپریل 2017

پاکستان میں رواں ہفتے کے دوران توہین مذہب کے نام پر دوسری انسانی جان ضائع کر دی گئی۔ تازہ ہلاکت پاکستان کے شمال مشرقی شہر سیالکوٹ کے ایک گاؤں میں ہوئی ہے۔

https://p.dw.com/p/2bd0q
Pakistan Proteste gegen Hinrichtung von Mumtaz Qadri
تصویر: Reuters/F. Mahmood

سیالکوٹ کی ایک شیعہ بستی میں بیماروں اور دوسرے مسائل کا  حل دعا اور تعویذ سےکرنے والے شخص مظہر حسین سید کے ڈیرے پر پہنچ کر تین برقعہ پوش خواتین نے اُن کے بیٹے کو بلا کر گولیوں کے پے در پے فائر مار کر ہلاک کر دیا۔ پینتالیس سالہ مقتول فضل عباس تقریباً تیرہ برس یورپی ملک بیلجیم میں اپنے کزن اظہر حسین کے پاس مقیم رہنے کے بعد کچھ ایام قبل ہی واپس وطن لوٹا تھا۔

قتل کی یہ واردات ضلع سیالکوٹ کی تحصیل پسرور کے گاؤں ننگل مرزا میں ہوئی۔ مظہر حسین سید تعویز اور دم درود کرنے کے علاوہ مقامی شیعہ کمیونٹی کے لیڈر بھی قرار دیے جاتے ہیں۔ اُن کے بیٹے فضل عباس پر الزام ہے کہ اُس نے مبینہ طور پر سن 2004 میں توہین مذہب کا ارتکاب کیا تھا۔ اُس وقت ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔

Pakistan Proteste nach Mord an Mashal Khan
تیرہ اپریل کو خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں ایک نوجوان طالب علم مشال خان کو توہین مذہیب کے نام پر قتل کر دیا گیا تھاتصویر: Getty Images/AFP/B. Khan

مقتول فضل عباس نے بیلجیم سے تیرہ سالوں کے بعد واپس آنے پر اِس مقدمے کی قبل از گرفتاری ضمانت بھی کرائی تھی۔ قتل کرنے والی برقعہ پوش خواتین نے اپنے ہتھیار چھپائے ہوئے تھے۔ ان خواتین کے مطابق توہین مذہب کرنے کے وقت وہ کم سن تھیں لہذا اب وہ بڑی ہو گئی ہیں اور اُس کا بدلہ لینے میں کامیاب رہی ہیں۔

مقامی پولیس کے ایک افسر نے ابتدائی تفتیش کے دوران کہا ہے کہ یہ خواتین کا انفرادی فعل دکھائی دیتا ہے اور اس میں فراقہ وارانہ منافرت کا پہلو سردست سامنے نہیں آیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس پہلو پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ اس واقعے میں کسی مذہبی تنظیم کا ہاتھ تو نہیں ہے۔

تیرہ اپریل کو خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں ایک نوجوان طالب علم مشال خان کو مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کا مرتکب قرار دے کر انتہائی بیدردی سے ہلاک کر دیا تھا۔ مشال خان کے قتل کی تفتیش ابھی جاری ہے۔ اس قتل میں ملوث ہونے کے شبے میں کچھ گرفتاریاں بھی کی جا چکی ہیں۔