توہین مذہب، ایک اور شخص قتل، قاتل تین برقعہ پوش خواتین
20 اپریل 2017سیالکوٹ کی ایک شیعہ بستی میں بیماروں اور دوسرے مسائل کا حل دعا اور تعویذ سےکرنے والے شخص مظہر حسین سید کے ڈیرے پر پہنچ کر تین برقعہ پوش خواتین نے اُن کے بیٹے کو بلا کر گولیوں کے پے در پے فائر مار کر ہلاک کر دیا۔ پینتالیس سالہ مقتول فضل عباس تقریباً تیرہ برس یورپی ملک بیلجیم میں اپنے کزن اظہر حسین کے پاس مقیم رہنے کے بعد کچھ ایام قبل ہی واپس وطن لوٹا تھا۔
قتل کی یہ واردات ضلع سیالکوٹ کی تحصیل پسرور کے گاؤں ننگل مرزا میں ہوئی۔ مظہر حسین سید تعویز اور دم درود کرنے کے علاوہ مقامی شیعہ کمیونٹی کے لیڈر بھی قرار دیے جاتے ہیں۔ اُن کے بیٹے فضل عباس پر الزام ہے کہ اُس نے مبینہ طور پر سن 2004 میں توہین مذہب کا ارتکاب کیا تھا۔ اُس وقت ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔
مقتول فضل عباس نے بیلجیم سے تیرہ سالوں کے بعد واپس آنے پر اِس مقدمے کی قبل از گرفتاری ضمانت بھی کرائی تھی۔ قتل کرنے والی برقعہ پوش خواتین نے اپنے ہتھیار چھپائے ہوئے تھے۔ ان خواتین کے مطابق توہین مذہب کرنے کے وقت وہ کم سن تھیں لہذا اب وہ بڑی ہو گئی ہیں اور اُس کا بدلہ لینے میں کامیاب رہی ہیں۔
مقامی پولیس کے ایک افسر نے ابتدائی تفتیش کے دوران کہا ہے کہ یہ خواتین کا انفرادی فعل دکھائی دیتا ہے اور اس میں فراقہ وارانہ منافرت کا پہلو سردست سامنے نہیں آیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس پہلو پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ اس واقعے میں کسی مذہبی تنظیم کا ہاتھ تو نہیں ہے۔
تیرہ اپریل کو خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں ایک نوجوان طالب علم مشال خان کو مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کا مرتکب قرار دے کر انتہائی بیدردی سے ہلاک کر دیا تھا۔ مشال خان کے قتل کی تفتیش ابھی جاری ہے۔ اس قتل میں ملوث ہونے کے شبے میں کچھ گرفتاریاں بھی کی جا چکی ہیں۔