تھائی لینڈ میں نئے وزیر اعظم کا انتخاب
15 دسمبر 2008تھائی لینڈ کی اپوزیشن کے لئے آج کا دِن دو طرح کا ہو سکتا ہے۔ اگر وہ اپنا وزیر اعظم منتخب کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو سرخرو، وگرنہ دوسری صورت میں اُس کو پشیمانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ گزشتہ روز بھی اپوزیشن کی جانب سے اپنے دعوے کے تسلسل میں کہا گیا کہ وہ پیر کو تھائی لینڈ کے لئے نیا وزیر اعظم منتخب کرنے میں کامیاب ہو گی۔
سیاسی صورت حال قدرے تناؤ کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ اِس تناؤ کی وجہ سن دو ہزار چھ میں معزول ہونے والے وزیر اعظم Thaksin Shinawatra کا ویڈیو فون کے ذریعے خطاب ہے۔ تھائی لینڈ کے سابق وزیر اعظم تھاکسن شناواترا نے یہ مُطالبہ کیا ہے کہ فوج کو ملکی سیاست میں دخل اندازی بند کردینی چاہیے۔ شناواترا نے بینکاک کے نیشنل سڈیڈیم میں موجود تقریباً پچاس ہزارحامیوں سے اپنے ویڈیو خطاب میں کہا کہ فوج ابھی بھی تھائی لینڈ کی سیاست میں دخل دے رہی ہے لیکن اب یہ سلسلہ ہمیشہ کے لئے بند ہونا چاہیے۔ شناواترا نے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فوج اور عدالتوں نے ایک ساتھ مل کر اُن کے حلیفوں کو اقتدار سے بے دخل کیا ہے۔
آج تھائی پارلیمنٹ میں گزشتہ چار مہینوں میں منتخب ہونے والے تیسرے وزیراعظم کا انتخاب ہو گا۔ اپوزیشن لیڈر Abhisit Vejjajiva کے وزیر اعظم بننے کے امکانات کے بارے میں سردست کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ Abhisit Vejjajiva کی ڈیموکریٹ پارٹی اور معزول وزیر اعظم تھاکشن کے حمایتی ممبران پارلیمنٹ ابھی تک مختلف ممبران کو ہم خیال بنانے کی کوششوں میں ہیں۔ ڈیمو کریٹ پارٹی کے لیڈر Abhisit Vejjajiva خاصے یقین میں ہیں کہ وہ وزیر اعظم کا انتخاب جیت جائیں گے۔
یہ ابھی واضح نہیں کہ اُن کو عدالتی فیصلے کی نذر ہونے والی پیپلز پاور پارٹی کی حلیف جماعتوں کی نئی سیاسی پارٹی Puea Thai کی حمایت بھی حاصل ہے یا نہیں۔ سابق وزیر صحت اور Puea Thai کے لیڈر Chalerm Yoobamrung کے مطابق نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے حوالے سے مقابلہ بہت سخت ہے اور جیت کا فرق آٹھ سے دس ووٹوں کا ہو گا اور اُن کی جماعت بھی حکومت سازی کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اِس نئی جماعت میں بھی تھاکسن شناوتر کے حمایتی شامل ہیں۔ نئی سیاسی پارٹی کی جانب سے وزیر اعظم کے امیدوار کا نام ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔
ویجا جیوا کا کہنا ہے کہ وہ مسائل کو سمجتے ہیں اور انتخاب کے فوراً بعد ہی وہ ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کی عملی کوششوں کا آغاز کردیں گے۔ ویجا جیوا برطانیہ میں پیدا ہوئے تھے اور اکسفورڈ یونی ورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔
تھائی لینڈ کی فوج پر سیاست میں مداخلت کا بھی سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ فوج کا کہنا ہے کہ پیپلز پاور پارٹی کی تحلیل کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی خلا میں اُن کا کوئی رول نہیں ہے۔ اِس مناسبت سے گزشتہ روز فوج کے ترجمان کرنل Sunsern Kaewkumnerd نے فوجی احساست کا اظہار بھی کیا۔
نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر پارلیمنٹ کے گردا گرد سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں۔ مقامی انتظامیہ کے مطابق معزول وزیر اعظم تھاکسن شناوترا کے حامیوں کی جانب سے متوقع مظاہرے میں تصادم کی صورت میں فوج طلب کر لی جائے گی۔ سیاسی صورت حال بظاہر پیچیدہ ضرور ہے لیکن کیا یہ تھائی لینڈ کے سیاسی بحران کا حل ہے۔ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب ہر تھائی شہری مانگ رہا ہے۔ سیاسی بحران کی وجہ سے تھائی لینڈ کو اقتصادی بحران کا بھی سامنا ہے۔ بینکاک کے ہوائی اڈے پر مظاہرین کے دھرنے کے بعد سے سیاحتی صنعت بے چارگی کا شکار ہو چکی ہے۔