تھائی لینڈ کا سیاسی بحران
8 اپریل 2009تھائی لینڈ کو عالمی معاشی بحران کے تناظر میں سکڑتی اقتصادیات کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر پھیلی سیاسی عدم استحکام کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی بےچینی سے سکڑتی اقتصادیات کو استحکام حاصل ہو رہا اور سیاحتی شعبے میں کمی کی وجہ سے عام آدمی کو معاشی بےسکونی کا سامنا ہے۔
تھائی وزیر اعظم Abhisit Vejjajiva کے خلاف تحریک شدت اختیار کر گئی ہے۔ سرخ قیمضوں میں ملبوس ہزار ہا افراد بدھ کو معزول وزیر اعظم تھاکشن شناوترا کی حمایت میں نعرہ بازی کرتے ہوئے وزیر اعظم Abhisit Vejjajiva کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مظاہرین کی تعداد منتظمین نے دو لاکھ بیان کی ہے جب کہ پولیس ساٹھ ہزار اور نائب وزیر اعظم Suthep Thuaksuban کے مطابق چالیس ہزار ہے۔
موجودہ وزیر اعظم کو منصب سنبھالے چار مہینے ہوئے ہیں اور اُن کو مسلسل سیاسی عدم استحکام کا سامنا ہے۔ دو ہفتوں سے تھاکشن شناوترا کے حامیوں نے گورنمنٹ ہاؤس کے سامنے پڑاؤ ڈال رکھا ہے۔ اِن کے لیڈر Nattawut Saikuar کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کو ایوان اقتدار سے باہر نکالنے کے لئے جمع ہیں۔ یہ صورت حال اُس وقت خراب ہو گئی تھی جب اِن مظاہرین نے وزیر اعظم Abhisit Vejjajiva کی گاڑی پر ہلہ بول ایک کھڑکی کے شیشے کو توڑ ڈالا تھا۔ موجودہ سیاسی بحران کے حوالے سے وزیر اعظم کا کہنا ہےکہ وہ تشدد کی سیاست کے آگے جھکتے ہوئے مستعفی نہیں ہوں گے اور اِس صورت حال کا قانون کے مطابق سامنا کیا جائے گا۔
دارالحکومت اور دوسرے شہروں میں یہ مسلسل تقویت پکڑتی جا رہی ہے۔ معزول وزیر اعظم تھاکشن شنا وترا کے حامیوں کے بدھ کے روز کا زور دار مظاہرہ امکاناً موجودہ وزیر اعظم کو منصب سے ہٹانے کے سلسلے میں مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔
شناوترا کے ہزاروں حامیوں نے تھائی شاہ Bhumibol Adulyadej کے اہم مشیر General Prem Tinsulanonda کے گھر کے باہر پہنچ کرمظاہرہ کیا۔ مظاہرین کو پولیس نے شروع ہی سے متنبہ کردیا تھا کہ وہ تھائی بادشاہ کے مشیر کے گھر کے اندر داخل ہونے کی کوشش نہیں کریں گے۔ مظاہرین کے خیال میں ملک کے اندر تمام سیاسی بے سکونی کا منبع اٹھاسی سالہ مشیر ہیں اور اُن کی مشاورت سے ہی سن دو ہزار چھ میں اُس وقت کے وزیر اعظم شناوترا کو ایک فوجی بغاوت کے بعد فارغ کردیا گیا تھا جو اب قانون کو مطلُوب ہیں۔
ایک بار پھر تھائی لینڈ میں عوام فوج کے اقتدار پر قبضے کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ اس مناسبت سے مظاہرین کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اِس کا امکان کم ہے کیونکہ موجودہ وزیر اعظم اور اُن کی کابینہ در اصل فوج کے آلہٴ کار ہیں۔ دوسری جانب تھائی لینڈ کی فوج کے سربراہ General Anupong Paojinda نے سیاسی بحران میں مداخلت کو خارج ازامکان قرار دیا ہے اور اُن کے مطابق قانون کی تابع فرمانی کی جائے گی۔
تھاکشن شناوترا کے حامی گزشتہ دسمبر سے وزیراعظم Abhisit Vejjajiva کے خلاف جارحانہ پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ تھاکشن شناوترا کے حامی سرخ قمیضوں کی مناسبت سے مشہور ہیں جب کہ اِن کے مخالفین زرد قمیضوں میں ملبوس ہوتے ہیں اور وہ تھائی شاہ کے وفادار سمجھے جاتے ہیں۔ انہی زرد قمیض والے مظاہرین نے تھاکشن شناوترا کے خلاف گزشتہ سال کے آخری ہفتوں کے دوران دارالحکومت بینکاک کے ہوائی اڈے پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ تھائی لینڈ کے موجودہ سیاسی بحران میں حمائتیوں کی تقسیم بھی انتہائی واضح ہو گئی ہے۔ شہری اشرافیہ اور آسودہ حال آبادی اب کھل کر تقریباً شاہ اور تھاکشن شناوترا مخالفت میں میدان میں اتر چکے ہیں۔ جب کہ تھاکشن شناوترا کوشہروں کے غریبوں اور شمال کی دیہی آبادی میں انتہائی مقبول تصور کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب تھائی لینڈ کے مشہور سیاحتی مرکز Pattaya میں پرسوں جمعہ سے آسیاں لیڈران کا اجلاس بھی شروع ہونے والا ہے۔ یہ وہی مقام ہے جہاں مشتعل ہجوم نے وزیر اعظم کی گاڑی پر حملہ کیا تھا۔ وزیر اعظم کے مطابق آسیاں اجلاس کے لئے تمام مہمانوں کی جانب سے شرکت کی تصدیق ہو چکی ہے اور اُس اجلاس کے لئے مؤثر سکیورٹی پلان کے لئے نظر ثانی کی جائے گی۔