1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سفر و سیاحتایشیا

تھر دل میں نہیں، خون کے ہر قطرے میں ہے!

4 جولائی 2021

مٹھی میں قیام کے دوران بارہا سننے کو ملا کہ آپ لوگوں کو اسلام کوٹ کے آشرم میں ضرور جانا چاہیے۔ تھر میں ’سفر ہے شرط‘ پروگرام کی پچیس اقساط ریکارڈ کرنی تھیں اور کم وقت کی وجہ سے شیڈول سخت تھا۔

https://p.dw.com/p/3w0Vu
Pakistan I DW Urdu Blogger Waqar Malik mit einer obdachlosen
تصویر: Waqar Malik/DW

جب تیسرے یا چوتھے بندے نے بھی یہی کہا تو میرا ماتھا ٹھنکا کہ یہ آشرم ضرور کو ئی خاصے کی چیز ہو گا۔ ہم ننگر پارکر کے لیے صبح سویرے مٹھی سے نکلے اور اسلام کوٹ میں آشرم دیکھنے کے لیے رکے۔ پروگرام یہ بنا کہ آشرم کو دیکھ لیتے ہیں اور واپسی پر وقت نکال کر اس کی ریکارڈنگ بھی کر لی جائے گی۔

آشرم کے صدر دروازے سے اندر جھانکا تو منظر کے طلسم کا ایسا شکار ہوئے کہ فورا ریکارڈنگ کا فیصلہ کر لیا۔ ہمیں کلدیپ صاحب نے خوش آمدید کہا اور آشرم کی تاریخ کے بارے میں بتانے لگے۔ میری توجہ کے کوندے میں ان کی کوئی بات آ جاتی تھی اور اکثر باتیں محو ہو جاتیں کہ میں آشرم کے اندر کے درختوں کے طلسم میں جکڑا جا چکا تھا۔ کہیں پس منظر میں کلدیپ کی آواز آ رہی تھی کہ ہم روزانہ پانچ من باجرہ پرندوں کے لیے ڈالتے ہیں۔ دوسری طرف میری توجہ آشرم کی دیواروں پر بیٹھے اور اوپر آسمانوں میں اڑتے عجیب و غریب پرندوں پر تھی۔

کلدیپ ہمیں بتا رہے تھے کہ یہ تمام درخت بابا نینو رام نے اپنے ہاتھوں سے لگائے تھے۔ یہاں جانوروں کو مفت چارہ دیا جاتا ہے اور انسانوں کے لیے ہر وقت کھانا دستیاب ہوتا ہے۔ یہ معلومات کہیں پس پردہ میری یادداشت کا حصہ بنتی جا رہیں تھیں اور میں وہاں کے طلسماتی ماحول میں ڈوبا ہوا تھا، ایک عجیب سکون آور کیفیت تھی، جو رگ و جاں میں سرایت کر رہی تھی ۔ درختوں سے چھنتی دھوپ اور ہندو عبادت گزاروں کے چہروں پر بولتی عاجزی نے ماحول کو کسی سہہ جہتی فلم کا سیٹ بنا دیا تھا۔

میں اس سیٹ کا ناظر تھا جبکہ اس سیٹ کا ایک کردار کلدیپ بتا رہا تھا کہ بابا نینو رام نے ایک کمال اور عجیب روایت قائم کی۔ انہوں نے ایک کنواں کھدوایا۔ تھر میں کنویں پہلے بھی کھدوائے جاتے ہیں لیکن یہ کنواں منفرد تھا۔ عام کنوؤں میں جانور چرخی کو گھما کر انسانوں کے لیے پانی نکالنے کی مشقت کرتے تھے لیکن بابا نینو رام کے اس کنویں پر انسان پانی نکالنے کی مشقت کرتے تھے اور جانوروں کے پینے کے لیے پانی نکالتے تھے۔

آشرم میں ہر طرف رنگ تھے۔ پورا آشرم شوخ رنگوں سے مزین تھا۔ مجھے ہنزہ میں اپنے ہوٹل پسو اِن میں ٹھہرنے والی ٹیا یاد آ گئی۔ ٹیا ایک خوبرو سیاح تھی اور رنگوں سے شدید محبت میں مبتلا تھی۔ وہ ایک کمال فوٹو گرافر تھی اور اس کی تمام تصاویر میں رنگ بہت شور کرتے تھے۔ اس نے اپنے بالوں کو مختلف رنگوں سے رنگ رکھا تھا۔ اس کے کپڑے ازحد رنگین ہوتے تھے۔ اس نے چہرے پر رنگین چشمہ سجا رکھا ہوتا تھا۔ مجھے زندگی میں پہلی دفعہ یہ رنگیلی جہت نظر آئی اور اس رنگیلی جہت نے بے حد متاثر کیا۔ زندگی کو کسی نئے زاویے سے دیکھنے کے لیے مخصوص ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے، جو ٹیا میں تھی مجھ میں نہیں تھی۔

آشرم میں ہر سو رنگ تھے۔ ہزاروں سال دھرتی سے محبت کرنے والوں کی محبت کا نتیجہ سامنے تھا۔ اچانک ایک چہرہ سامنے آیا۔ اس پر ہزاروں سال کی تاریخ رقم تھی،  ہزاروں سال اس جسم پر ایسے بیتے کہ کمر خمیدہ تھی۔ کلدیپ کہنے لگے یہ بابا مکیش ہیں ان سے بات کر لیں۔

بابا مکیش کے سامنے مائیک کرتے ہوئے میں نے پوچھا کہ بابا جی آپ کا نام کیا ہے؟

بابا جی نے انتہائی سنجیدگی سے مجھے دیکھا ۔ ان کے چہرے کے تاثرات میں میں اپنی حماقت دیکھ سکتا تھا۔ بابا مکیش نے ڈانٹنے کے انداز میں مجھے اشارہ کیا کہ ادھر بیٹھو! یہ سوال کرنے کا کونسا طریقہ ہے؟

میں زمین پر بچھی چٹائی پر بیٹھ گیا۔ بابا مکیش نے وہاں ایک فرد کو میٹھا دلیہ اور چائے لانے کو کہا۔ 

کہاں سے آئے ہو؟ بابا مکیش لاٹھی ایک طرف رکھتے ہوئے فرش پر بیٹھے اور میری طرف توجہ کی۔

بابا جی لاہور سے آئے ہیں ہم

تھوڑی دیر بابا مکیش خاموش رہے۔ گفتگو میں بابا مکیش کے سوچ میں ڈوبے خاموشی کے وقفے بہت بھلے لگتے تھے۔ خاموشی کے دوران وہ مسلسل مخاطب کا چہرہ تکتے رہتے ہیں۔ آپ کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ وہ آپ کا چہرہ پڑھ رہے ہیں یا کوئی نیا سوال سوچ رہے ہیں۔

لاہور میں کہاں سے؟، بابا مکیش نے خاموشی کے وقفے کو توڑا

کلمہ چوک سے بابا جی!

بابا جی پھر خاموش ہو گئے۔ میں سوچ رہا تھا کہ شاید وہ کلمہ چوک کا جغرافیہ یاد کر رہے ہیں ہیں یا میرے چہرے کو غور سے دیکھ رہے ہیں کہ پتا لگا سکیں مخاطب سچ بول رہا ہے یا جھوٹ۔ خاموش رہنے اور گھورنے کے شغل کے بعد کہنے لگے، ''میں 1975 میں لاہور گیا تھا۔‘‘

''اچھا آپ نے لاہور دیکھا ہوا ہے۔ لاہور میں کیا پسند آیا تھا؟ کیا شاہی قلعہ دیکھا تھا۔ لاہور کے کھانے آپ کو کیسے لگے؟‘‘ میں نے یہ جان کر کہ بابا مکیش نے لاہور دیکھ رکھا ہے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔

''میں مسلم ٹاؤن میں ایک دوست کے گھر رہا تھا۔ باہر کھانا نہیں کھایا، لاہور اچھا تھا۔ تمہیں ایک بات بتاوں؟‘‘

جی جی بابا جی بتائیں، میں نے جوش سے کہا۔

''لاہور میں شہر کے اندر سے ایک نہر بہتی ہے۔‘‘ بابا مکیش نے میرے کان کے قریب آتے رازدارانہ انداز میں کہا۔

صحرا کے باسی کی آنکھوں میں پانی کی حیرت دیکھ کر نہ جانے میری آنکھوں میں کہاں سے نمی سی آ گئی تھی۔ خاموشی کا ایک وقفہ در آیا۔

''بابا جی آپ کو تھر سے محبت ہے؟ کیا تھر آپ کے دل میں رہتا ہے؟‘‘

''نہیں، تھر میرے دل میں نہیں رہتا۔‘‘ بابا مکیش کے چہرے پر ازحد پھیلی پہلے اکیلی سنجیدگی تھی پھر خاموشی بھی حصہ بن گئی۔ میں کچھ مایوس سا ہو گیا۔ بعد میں علم ہوا کہ بابا جی عموما ہر سوال کا جواب نہیں سے شروع کرتے، پھر بیچ میں ایک وقفہ کرتے اور مخاطب کے چہرے پر حیرت سے لطف اٹھاتے اور پھر اصل جواب کی طرف آتے۔ اس سے پہلے کہ میں اگلا سوال کرتا، بابا مکیش گویا ہوئے،''تھر میرے دل میں نہیں بلکہ میرے اندر خون کا ایک ایک قطرہ تھر ہے۔ تھر میرے سارے بدن میں پھیلا ہے، تم نے تھر کو صرف دل تک محدود کر دیا تھا۔‘‘

میں مسکرایا! بابا مکیش کی آنکھیں میرے چہرے پر آتے جاتے رنگوں سے محظوظ ہو رہی تھیں۔

''بابا جی مجھے تھر بہت اچھا لگا ہے۔ میں لاہور چلا جاوں گا لیکن دل تھر میں چھوڑ جاوں گا۔‘‘ میں نے بابا کی تھر سے محبت کو محسوس کرتے ہوئے تھر سے اپنی محبت کا اعلان کیا ۔ شاید میں لاشعوری طور پر  بابا مکیش کے دل میں جگہ بنانا چاہتا تھا۔

''نہیں! غلطی کرو گے، ایسا نہ کرنا۔‘‘ بابا مکیش یہ کہہ کر خاموشی کی طویل تعطیلات پر چلے گئے۔ میں پھر اپنے آپ کو احمق سمجھ رہا تھا۔ اپنے حوالے سے میری یہ سوچ میرے چہرے پر نمایا ں تھی اور بابا مکیش شرارتی آنکھوں اور مسکراہٹ کے ساتھ بھرپور لطف لے رہے تھے۔

''دل چھوڑ کر نہ جانا!‘‘  خاموشی کا وقفہ ٹوٹتا ہے، ''یہاں سے یادوں کی ایک پوٹلی لے کر جانا، دل یہاں چھوڑ کر جاو گے تو زندہ کیسے رہو گے؟‘‘ بابا مکیش نے آخری فقرہ بولتے ہوئے آنکھ مارتے ہوئے قہقہ لگایا اور فوراﹰ پنجے پر پنجہ مارنے کے لیے ہاتھ آگے کر دیا۔

''بابا جی کیا آپ کا دل کرتا ہے کہ تھر چھوڑ کر شہر میں جا بسیں کہ وہاں سہولیات ہیں اور شاید زندگی آسان ہے۔‘‘ میں نے سوال پوچھا۔

''آک کا پودا دیکھا ہے؟‘‘ بابا مکیش نے پوچھا۔

''جی بابا جی، یہ زہریلا پودا میرے آبائی علاقے میں بھی ہے۔‘‘

بابا مکیش تھوڑی دیر خاموش رہے پھر کہنے لگے،''آک کا کیڑا آک میں خوش رہتا ہے۔ آک چھوڑے تو مر جاتا ہے۔‘‘

''بابا جی‘‘

''ہاں؟‘‘

''آپ کے بچے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

ہاں!  بابا مکیش نے پہلی دفعہ کسی جواب کی شروعات ہاں سے کی تھیں۔ مجھے طمانیت کے ساتھ کچھ اعتماد حاصل ہوا۔

''بابا جی آپ کے بچے کیا کرتے ہیں؟‘‘ میں نے یہ سوچ کر سوال پوچھا کہ اس جواب کا آغاز بابا مکیش نہیں سے نہیں کر سکیں گے۔

''وہ اپنا کام کرتے ہیں میں اپنا کام کرتا ہوں۔‘‘ بابا مکیش کے پاس جوابات میں 'نہیں‘ کے علاوہ بھی حیرت میں ڈالنے کا سامان وافر تھا۔

''لیکن وہ کیا کام کرتے ہیں؟‘‘

''ایک مر گیا ہے۔ دوسرا کاروبار کرتا ہے۔‘‘ بابا مکیش کے چہرے پر تاثرات کی گہرائی میں کہیں افسردگی تھی۔ میں نے موضوع بدلتے ہوئے کہا، ''بابا جی یہ جو آپ روزانہ اتنے لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں اس قدر خدمت کرتے ہیں، اس عمر میں اتنی مشقت سے گزرتے ہیں تو یقیناﹰ روحانی مسرت حاصل ہوتی ہو گی۔؟‘‘

''نہیں‘‘، بابا مکیش نے پھر نہیں کا گولہ داغ دیا۔

کیا؟ میرے چہرے پر حیرت کا تسلسل تھا۔

''یار ملتی ہے تو یہاں بیٹھے ہیں وگرنہ کسی کا دماغ خراب ہے، جو یہاں بیٹھے گا۔‘‘ بابا مکیش نے اس دفعہ خاموشی کا وقفہ نہیں لیا تھا۔

''بابا جی مجھے یہاں آکر بہت روحانی خوشی حاصل ہو رہی ہے اور یہ بات میں دل سے کہہ رہا ہوں۔ ایک عجیب سکون کا سا احساس ہے، جس نے مجھے جکڑ لیا ہے۔ اس آشرم کی فضا میں کچھ خاص بات ہے۔‘‘

بابا مکیش اب میرے چہرے کو نہیں دیکھ رہے تھے۔ ان کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ بھی نہیں تھی۔ وہ آشرم کے درو دیوار کو  گھور رہے تھے۔ پھر کچھ وقفے کے بعد کہنے لگے، ''آشرم میں کچھ نہیں ہے کہیں بھی کچھ نہیں ہے، جو کچھ بھی ہے، وہ تمہارے اندر ہے۔ تم کسی مسلمان فقیر کی درگاہ پر جاو یا ہندو بابا کے بنائے آشرم پر، سکون ہی پاو گے لیکن جو ہے وہ تمہارے اندر ہے، جو ایسی جگہوں پر جہاں نیک روحوں نے وقت گزارا ہوتا ہے، ربط میں آ جاتا ہے۔ تمہارے اندر کچھ نہیں ہو گا تو ربط میں کیا آئے گا؟ کچھ بھی نہیں، جہاں مرضی چلے جاو سکون نہیں ملے گا۔ ربط میں لانے کے لیے تمہارے اندر کچھ ہونا ضروری ہے وگرنہ کوئی عبادت گاہ کوئی جوگی کوئی فقیر کچھ نہیں کرسکتا۔‘‘

اب کی بار میں خاموشی کی طویل تعطیلات پر تھا اور بابا مکیش میری بخیریت واپسی کے منتظر تھے۔