1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تین طلاقیں غیر آئینی ہیں، بھارتی سپریم کورٹ

صائمہ حیدر
22 اگست 2017

بھارتی سپریم کورٹ نے منگل کے روز مسلمانوں میں بیک وقت تین طلاقیں دینے کے شرعی قانون کو غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔ بھارتی مسلم خواتین کے لیے اس عدالتی فیصلے کو تاریخی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2icMU
Symbolbild Muslimische Frauen
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg

اس متنازعہ شرعی قانون کے تحت مسلم شوہر اپنی بیوی کو محض تین بار لفظ طلاق کہہ کر شادی کا بندھن ختم کر سکتا ہے۔ بعض واقعات میں تو واٹس ایپ اور اسکائپ کے ذریعے بھی خواتین کو طلاق دی گئی ہے۔ مسلم خواتین کا کہنا ہے کہ اس طرح یک دم طلاق دے کر اُن کے شوہر اُنہیں سماج میں محروم اور خالی ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں۔

بھارت میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور کئی ایک خواتین نے خود بھی اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کر رکھی تھیں۔ ان درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کا ایک پانچ رکنی بینچ کر رہا تھا۔ اس پانچ رکنی بینچ کے تین ججوں نے بیک وقت تین طلاقیں دینے کو غیر آئینی گردانتے ہوئے اس کے فوری خاتمے کا حکم سنایا ہے۔

ابتدا میں بھارت کی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے اس عمل کو معطّل کرتے ہوئے حکومت سے چھ ماہ کے اندر تین طلاقوں سے متعلق نیا قانون بنانے کا کہا جائے۔ تاہم تین جج صاحبان نے چیف جسٹس کے اس موقف کو مسترد کرتے ہوئے اس روایت کو غیر آئینی قرار دے دیا۔

بیک وقت تین طلاقیں دینے کے خلاف درخواست دائر کرنے والی خواتین میں سے ایک خاتون شاعرہ بانو نے عدالتی فیصلے کے بعد خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ آج میں خود کو آزاد محسوس کر رہی ہوں۔ ایک ایسا عدالتی فیصلہ سامنے آیا ہے جو بہت سی مسلم خواتین کو آزادی دے گا۔‘‘

Muslimische Wählerinnen in Indien 10.04.2014
مسلم خواتین کا کہنا ہے کہ اس طرح یک دم طلاق دے کر اُن کے شوہر اُنہیں سماج میں محروم اور خالی ہاتھ چھوڑ دیتے ہیںتصویر: Reuters

بھارتی مسلمانوں میں اس طرح طلاق کی روایت کو حالیہ برسوں میں کئی بار قانونی چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑا، جس پر نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے کہا کہ وہ اس حوالے سے مختلف قوانین کو ایک ایسے یکساں نوعیت کے سول ضابطے کے ساتھ بدل دینا چاہتی ہے، جسے ملکی آبادی میں تمام مذاہب کے شہریوں پر لاگو کیا جا سکے۔ مودی حکومت کی اس تجویز کی تاہم کئی مسلم تنظیموں اور شہری گروپوں کی طرف سے مخالفت کی گئی ہے، جن کے مطابق کوئی بھی نیا یکساں سول ضابطہ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ’امتیازی سلوک‘ سمجھا جائے گا۔

گزشتہ برس اتر پردیش میں ہوئے ایک جلسے میں بھارتی وزیراعظم نے کہا تھا ، ’’میری مسلمان بہنوں نے کیا گناہ کیا ہے کہ ٹیلی فون پر بھی انہیں تین بار طلاق کا لفظ کہہ کر ان کی پوری زندگی برباد کر دی جائے۔‘‘

دوسری جانب بھارت میں کئی مسلم مذہبی گروپوں کا اصرار رہا ہے کہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق مرد اپنی اہلیہ کو بیک وقت تین طلاقیں دینے کا بنیادی حق رکھتا ہے، اس لیے ملکی سپریم کورٹ اس مذہبی عمل میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ بعض مسلم تنظیموں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریاست کو مذہبی معاملات میں دخل در معقولات کا حق حاصل نہیں۔

خیال رہے کہ بیک وقت تین  بار طلاق کہہ کر ازدواجی رشتہ ختم کرنے پر بھارت کے پڑوسی ملک پاکستان اور قدامت پسند ملک سعودی عرب سمیت متعدد مسلم ممالک میں پابندی ہے۔