تیونس : بن علی کی بے دخلی کے دوسال
14 جنوری 2013تیونس میں زین العابدین بن علی کی اقتدار سے بے دخلی کو آج دو سال مکمل ہو گئے۔ بن علی نے بیس سال سے زائد اس ملک پر حکمرانی کی تھی۔ عوام پر امید تھےکہ بن علی کے بعد ملک میں جمہوریت فروغ پائے گی لیکن یہ عمل بہت سست روی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ تیونس کے عوام کی امید تھی کہ بن علی کے بعد ملک میں ترقی ہو گی، آزادی ہو گی۔ تاہم آج دو سال بعد بھی بہت سے مسائل پہلے کی طرح موجود ہیں۔ محمد نامی ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ انقلاب کے ثمرات ابھی تک دکھائی نہیں دے رہے۔ ’’حالات بہت بہتر ہو سکتے تھے۔ معاشرے میں ابھی بھی بہت سے مسائل موجود ہیں۔ حکومت اور حزب اختلاف کی جانب سے بھی مسائل کو ہوا دی جا رہی ہے۔ اگر یہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں تو معاملات تیزی سے بہتری کی جانب بڑھ سکتے ہیں‘‘۔
تیونس کی معیشت ملک میں آنے والے انقلاب سے متاثر ہو رہی ہے۔ غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے سیاحوں میں خوف پایا جاتا ہے جبکہ غیر ملکی تاجر آئے دن ہونے والے مظاہروں سے تنگ آ کر تیونس میں سرمایہ کاری کرنے سے گھبرا رہے ہیں۔ ایک جانب تیونس میں اشیاء خورد ونوش کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور دوسری طرف عوام کی جیبیں خالی ہوتی جا رہی ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے عوام آئے دن احتجاجاً سڑکوں پر نکلتے رہتے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں بے روز گاری کی شرح سترہ فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو بن علی کے دور حکومت کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ ملک کے ایسے بھی کچھ شہر ہیں، جہاں کی نصف سے زائد آبادی کے پاس روز گار نہیں ہے۔ وکیل حیات جزر بھی حکومت پر اپنا غصہ نکالنے کے لیے احتجاج میں شریک ہوتی رہتی ہیں۔ ’’ نا تو اس ملک میں انصاف ہے اور نہ ہی روز گار۔ عوام کی خواہشات کا احترام بالکل بھی نہیں کیا جاتا۔حکومت النہضہ کی مدد سے معاملات دبانے کی کوشش کر تی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تیونس میں جلد بن علی کے دور کی طرح کی حکومت قائم ہونے والی ہے‘‘۔
تیونس میں انقلاب کے بعد عوام نے آئین میں تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا تاکہ آئندہ کبھی کوئی آمر ملک پر حکومت نہ کر سکے۔ اکتوبر2011ء میں عام انتخابات کے بعد ابھی تک یہ کام مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ اس صورتحال میں بھی شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے۔ انہیں مکمل بھروسہ ہے کہ ایک دن تیونس میں جمہوریت کا حقیقی معنوں میں ضرور بول بالا ہو گا۔
Sarah Mresch/ ai / ij