1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیونس: پارلیمانی انتخابات کے دوران مایوسی کا ماحول

17 دسمبر 2022

تیونس کی پارلیمانی انتخابات کے لیے ووٹ ڈالے جا رہے ہیں، تاہم مبصرین کے خیال میں اقتدار پر صدر کی آہنی گرفت کی وجہ سے کسی بڑی تبدیلی کا امکان کم ہے۔ معاشی صورت حال ابتر ہونے کی وجہ سے ووٹر بھی اداس ہیں۔

https://p.dw.com/p/4L5tz
Tunesien Wahlen
تصویر: Yassine Gaidi/AA/picture alliance

تیونس میں 17 دسمبر ہفتے کے روز ہونے والے عام انتخابات کے موقع پر دارالحکومت تیونس کی سڑکوں پر مایوسی کے گہرے بادل دکھائی دیے۔ ایک سرکاری ملازم لطفی بلہادی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، "میں پولنگ میں حصہ نہیں لوں گا کیونکہ اس میں کوئی اعتباریت یا شفافیت تو ہے نہیں۔"

تیونس کے 'داخلی معاملات میں مداخلت‘: امریکی سفیر کو طلب کر لیا گیا

انہوں نے مزید کہا کہ یہ، "انتخابات تو بس ایک دھوکہ و فریب ہیں اور پارلیمنٹ اب ایک ایسا ادارہ ہو گا جس کے پاس اختیارات نہیں ہوں گے۔"

تیونس: تبدیلی آئین پر ریفرنڈم کو عوامی حمایت کا دعوی، اپوزیشن نے مسترد کر دیا

انگریزی زبان کی ایک ٹیچر سمیّہ صالحی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ بھی ووٹ نہیں دیں گی: "میری شرکت ایک غیر قانونی اور غیر جمہوری صورتحال کو معمول پر لانے کی مترادف ہو گی۔ آخر ایسے نائبین کو منتخب کرنے کا کیا فائدہ جو خود نہ تو اپنے فیصلے کر سکتے ہیں اور نہ ہی صدر اور حکومت میں شامل ارکان کو جوابدہ ٹھہرانے کا اختیار رکھتے ہیں؟"

تیونس میں آئینی ریفرنڈم، طاقت ایک شخص کے ہاتھ میں؟

صالحی کے یہ الفاظ صدر قیس سعید اور ان کی سیاسی تبدیلی سے متعلق عوام کی بگڑتی ہوئی رائے عامہ کو واضح کرتے ہیں۔ قانون کے سابق پروفیسر سعید محض دو برس قبل ہی صدر بنے تھے۔ انہوں نے جولائی 2021 میں منتخب پارلیمنٹ کو معطل کرنے کے ساتھ ہی وزیر اعظم ہشام مشیشی کو برطرف کر دیا تھا۔

پھر اس برس فروری میں سعید نے ملک کی سپریم جوڈیشل کونسل کو معطل کر دیا اور ایک ماہ بعد ہی پارلیمنٹ کو مکمل طور پر تحلیل کر دیا۔ جولائی میں ریفرنڈم  کے ذریعے ایک ایسے نئے آئین کو منظور کروا لیا، جس سے صدارتی اختیارات مزید وسیع ہو گئے۔

پھر اسی برس ستمبر میں ملک کے انتخابی قانون میں تبدیلیاں کی گئیں، جس کا اطلاق ان انتخابات پر ہو گا۔ اب 217 کے بجائے 161 انتخابی حلقے ہیں اور پہلی بار لوگ پارٹی کی فہرستوں کے بجائے انفرادی امیدواروں کو ووٹ دیں گے۔

صدر نے انتخابی مہم کے لیے عوامی فنڈنگ پر بھی پابندی عائد کر دی اور ہر امیدوار کو کم سے کم 400 افراد کی تائید فراہم کرنا پڑی۔ صنفی برابری، جسے سن 2016 میں عرب انقلاب کے اہم مطالبات میں سے ایک کے طور پر 2011 میں متعارف کرایا گیا تھا،  اسے بھی ختم کر دیا گیا ہے۔

قیس سعید نے انتخابات میں حصہ لینے والے انفرادی امیدواروں سے متعلق رپورٹنگ کرنے پر بھی بین الاقوامی صحافیوں پر پابندی لگا دی۔

تیونس کے انتخابی کمیشن (آئی ای ایس ای) کے مطابق پانچ جماعتوں اور تقریباً 1500 آزاد امیدوار، بیشتر نامعلوم شخصیات کو، اس  مقابلے میں شامل ہونے کے لیے داخل کیا گیا تھا۔  لیکن 12 جماعتوں، جس میں بااثر اسلام پسند النہضہ پارٹی بھی شامل ہے، نے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔

Tunesien Ben Arous | Parlamentswahl
قیس سعید نے انتخابات میں حصہ لینے والے انفرادی امیدواروں سے متعلق رپورٹنگ کرنے پر بھی بین الاقوامی صحافیوں پر پابندی لگا دیتصویر: Yassine Gaidi/AA/picture alliance

انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والے اپوزیشن نیشنل سالویشن فرنٹ اتحاد کے ایک بانی رکن عزالدین ہزغوئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ہم ایسے شخص کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دے سکتے، جس نے ریاستی اداروں کو تباہ کر دیا ہو۔ اگر یہ بائیکاٹ ایک جمہوری نظام میں ہوتا، تو شاید غلط ہوتا، لیکن ہمیں تو بغاوت کا سامنا ہے۔"

لندن میں عالمی رسک اور انٹیلیجنس کمپنی 'انٹرنیشنل انٹریسٹ' کے منیجنگ ڈائریکٹر سمیع حمدی نے اس الیکشن کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، "صدر سعید کے لیے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ (تیونس کے) لوگ انتخابات کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں۔ ایسا کوئی بھی نہیں ہے جو یہ تسلیم کرے کہ تیونس میں کوئی جمہوری عمل ہو رہا ہے۔"

حمدی نے کہا کہ صدر امید کر رہے تھے کہ وہ اس عمل سے پارلیمنٹ تحلیل کرنے سے متعلق تمام الزامات کو ختم کر دیں گے اور شاید بین الاقوامی برادری پارلیمانی انتخابات کو تسلیم کر لے گی۔ اس سے بیرون ملک سے انتہائی ضروری مالی امداد کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔

بدحال ہوتی معیشت

تیونس میں انتخابات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب ملک کی معاشی صورتحال خاصی خراب ہو چکی ہے۔ ملک کے قومی ادارہ شماریات کے مطابق اس وقت افراط زر کی شرح 10 فیصد کے قریب ہے، جو ریکارڈ طور پر بلند ترین شرح ہے۔ کووڈ کی وبا اور یوکرین پر روسی حملے کی وجہ سے بھی گندم اور درآمدات کی جانے والی دیگر اشیاء کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔

تمام کوششوں کے باوجود قیس سعید کی انتظامیہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے امداد حاصل کرنے کا کوئی معاہدہ نہیں کر سکی ہے۔ اب اس کی دوبارہ کوشش ہو رہی ہے تاہم اطلاعات کے مطابق جو فنڈز موجودہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے درکار ہیں وہ تیونس کو مشکل سے ہی مل پائیں گے۔

پریشانیاں اور خوف

یورپی کونسل میں خارجی تعلقات کے سینیئر پالیسی فیلو انتھونی ڈورکن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ایک چیز جس کا لوگ انتظار کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ کیا یہ انتخابات واقعی کچھ ٹھوس اقتصادی منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کا موقع فراہم کریں گے۔ بدقسمتی سے اب تک ایسی کوئی چیز ریکارڈ پر نہیں ہے، جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ قیس سعید ایسا کرنے کے لیے کوئی موقع تلاش کر رہے ہوں۔"

ڈورکن کا مزید کہنا تھا کہ اس کے بجائے، "ہم نے اب تک جو کچھ بھی دیکھا وہ یہ ہے کہ انہوں نے حقیقت میں آزاد اداروں کو بند کرنے کی کوشش کے لیے ایک نظام بنایا ہے۔" انہوں نے کہا کہ تشویش اس بات پر ہے کہ انتخابات کے بعد صدر، "دیگر عناصر بشمول سول سوسائٹی، آزادی اظہار اور سیاسی جماعتوں پر مزید دباؤ ڈالنے کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔"

تاہم تیونس کے ایک معمر رہائشی عبدالمجید طیب نے امید کا دامن چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ ہفتے کو اپنا ووٹ ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا، "ہمیں امید ہے کہ آئینی اداروں کی واپسی ہو گی، پارلیمنٹ اپنا فرض ادا کرنے کے ساتھ ہی قوانین میں ترامیم بھی متعارف کرائے گی۔"

ص ز/ ش ح (جینیفر ہولایس/ طارق غزیانی)

تیونس میں سیکس ایجوکیشن، ایک ممنوع موضوع