جادوگرنی قرار دے کر خاتون کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا
21 جولائی 2015پولیس کے مطابق مونی اورنگ نامی پانچ بچوں کی ماں کے قتل کے الزام میں سات افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں ہندو مذہبی رہنماؤں کی طرف سے مذکورہ خاتون پر الزام لگایا گیا کہ جنتر منتر کر رہی تھی۔ اس کے بعد پیر 20 جولائی کو حملہ آوروں نے اس خاتون کو گھر سے باہر لے جا کر قتل کر دیا۔
سینیئر پولیس اہلکار مانابیندرا دیو رائے نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’خنجروں اور دیگر تیز دھار ہتھیاروں سے لیس حملہ آور گاؤں میں آئے اور انہوں نے مونی اورنگ کو اس کے گھر سے دور لے جا کر بے دردی سے اسے قتل کر دیا۔‘‘ پولیس اہلکار کا مزید کہنا تھا، ’’اس کا سر کاٹ دیا گیا اور اس کے جسم کے ٹکڑے کر دیے گئے۔‘‘
پولیس کی طرف سے لوگوں کو حراست میں لینے کے خلاف دیہاتیوں نے آج منگل 21 جولائی کو مقامی پولیس اسٹیشن کے باہر مظاہرہ بھی کیا ہے۔ اس گاؤں کے ایک رہائشی کا ایک مقامی ٹیلی وژن سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’مونی ایک جادو گرنی تھی اور وہ اپنے دشمنوں کے خلاف شیطانی اعمال کرتی تھی۔۔۔ اس طرح کے جادو گروں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اس لیے اس کو قتل کرنا درست تھا۔‘‘
مقتولہ کے شوہر آر - اورنگ کے مطابق اس کی بیوی ’ایک معصوم عورت‘ تھی۔ اس نے مقامی ہندو مذہبی رہنماؤں پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے شکوک و شبہات پیدا کیے اور لوگوں کو اکسایا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بھارت کے بعض علاقوں میں آج بھی بڑے پیمانے پر جادو ٹونے پر یقین کیا جاتا ہے خاص طور پر غربت کے شکار اور قبائلی علاقوں میں۔ بعض واقعات میں خواتین کو برہنہ کر کے انہیں سزائیں دی جا چکی ہیں، یہ پھر انہیں زندہ جلایا اور گھروں سے نکال کر قتل کیا جا چکا ہے۔
بھارت کی بعض ریاستوں نے جن میں جھاڑکھنڈ بھی شامل ہے، ایسے خصوصی قوانین متعارف کرائے ہیں جن میں جادوگری کا الزام لگا کر کسی کے خلاف جرائم کی روک تھام کی کوشش کی گئی ہے۔