1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جارجیا اور روس جنگ کے دہانے پر

Amjad, Ali8 اگست 2008

جنوبی قفقاز میں جارجیا نے اپنے علٰیحدگی پسند علاقے جنوبی اوسیتیا کے خلاف فوجی کارروائی کی ہے، جبکہ جواب میں روسی دَستے اوسیتیا کی مدد کو پہنچ گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ جھڑپوں میں اب تک سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/EtAM
تصویر: picture-alliance/dpa

جمعہ آٹھ اگست کو بیجنگ میں اولمپک کھیلوں کی افتتاحی تقریب کے دوران جب جارجیا کے کھلاڑیوں کا دَستہ اپنے پرچم کے ساتھ میدان میں آیا تو حاضرین کی نظریں خاص طور پر اُس جانب اُٹھیں کیونکہ جنوبی قفقاز کا یہ ملک اِس وقت حالتِ جنگ میں ہے۔ گذشتہ سولہ سال سے روس کی پشت پناہی سے جارجیا سے الگ ہو کر ایک آزاد ریاست کی شکل اختیار کرنے کے لئے کوشاں خِطے جنوبی اوسیتیا کے تنازعے نے جارجیا اور روس کو جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ جمعے کے روز جارجیا کے فوجی دَستوں نے اِس علاقے کو پھر سے اپنے کنٹرول میں لانے کے لئے بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی کا آغاز کیا اور فوراً بعد اعلان کیا کہ جنوبی اوسیتیا کے دارالحکومت سِن والی پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔

علٰیحدگی پسندوں نے اِس دعوے و رَد کر دیا، تاہم تسلیم کیا کہ شہر پر جنگی طیاروں، بھاری توپ خانے اور راکٹوں کی مدد سے حملہ کیا گیا ہے،کئی مکانات آگ اور دھوئیں کی لپیٹ میں ہیں اور روسی امن دَستے میں شامل کم از کم دَس فوجی مارے گئے ہیں۔ جنوبی اوسیتیا کے حکام کے مطابق تقریباً 1,400 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

Südossetien: Mehrere hundert Tote bei Kämpfen in Konfliktregion
جورجیا کے ٹینک جنوبی اوستیا کی سرحد کے قریبتصویر: picture-alliance/dpa

عینی شاہدوں نے بتایا ہے کہ سِن والی تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ 50 سالہ لُڈمِلا اوستاژیوا نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک نمائندے کو بتایا کہ سڑکوں پر، تباہ شُدہ مکانات کے اردگرد یا پھر کاروں میں ہر طرف لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ اُس کا کہنا تھا کہ شہر میں شاید ہی کوئی مکان ایسا بچا ہو، جسے نقصان نہ پہنچا ہو۔ شہر کا اہم ترین ہسپتال بھی حملے کی زَد میں آیا ہے اور اُسے اپنا کام بند کرنا پڑا ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ علٰیحدگی پسندوں کی جانب سے مدد طلب کئے جانے کے چند ہی گھنٹے بعد نہ صرف روسی ٹینک جنوبی اوسیتیا میں داخل ہو گئے بلکہ روسی جنگی طیاروں نے جارجیا کے ٹھکانوں پر حملے بھی شروع کر دئے۔ جنگ کی وجہ سے جورجیا نے عراق میں تعینات اپنے خصوصی فوجی دستے کی آدھی نفری یعنی ایک ہزار فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

Karte Kaukasus Georgien mit den Teilrepubliken Abchasien und Südossetien brasilianisch brazil
قفقاز کا نقشہ جس میں جنوبی اوسیتیا اور ابخازیہ کا علاقہ بھی نظر آ رہا ہے

روسی صدر دمتری میدوی ایدف نے آج کہا: ’’اِس وقت جنوبی اوسیتیا میں شہری، عورتیں، بچے اور بوڑھے مر رہے ہیں، جن میں سے اکثریت روسی شہریوں کی ہے۔ وفاقِ روس کے صدر کے طور پر آئین کی رُو سے۔ مَیں روسی شہریوں کے دفاع کا ذمہ دار ہوں، خواہ وہ کہیں بھی ہوں۔ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے کہ ہمارے شہریوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے والے سزا سے بچ جائیں۔ ذمہ دار عناصر کو وہ سزا مل کر رہے گی، جس کے وہ حق دار ہیں۔‘‘ اِس سے پہلے وزیر اعظم ولادی میر پوٹین نے، بھی، جو اولمپک کھیلوں کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لئے بیجنگ میں تھے، جوابی کارروائی کی دھمکی دی تھی۔ ماسکو میں وَزارتِ دفاع نے جارجیا کی فوجی پیشقدمی کو ایک ’’غلیظ مہم جوئی‘‘ قرار دیتے ہوئے اِس کی مذمت کی ہے۔

اُدھر جارجیا کے صدر میخائیل ساکاش وِلی نے اِس جنگ میں امریکہ سے مدد کی درخواست کی ہے۔ امریکی ٹی وی چینل سی این این کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں ساکاش وِلی نے کہا:’’ہم جمہوریت اور آزادی کی قدروں پر یقین رکھتے ہیں۔ امریکہ کی یونیورسٹیوں میں مجھے سکھایا گیا کہ امریکہ ہمیشہ آزادی کی حمایت کرتا ہے۔ میرے خیال میں یہ لمحہ امریکہ کے لئے، صدر بُش کے لئے، پوری دُنیا کے لئے حقیقت کو سمجھ لینے اور سچ کا ساتھ دینے کا لمحہ ہے۔‘‘ امریکی صدر بُش نے جارجیا کی علاقائی سالمیت کی حمایت کی ہے، جبکہ صدارتی اُمیدواروں جون مککین اور باراک اوبامہ کی طرح جرمن چانسل ر انگیلا میرکل نے بھی روس اور جارجیا دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ یہ لڑائی بند کریں اور تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کریں۔

Russland Friedenstruppe für Südossetien und Georgien
تصویر: AP

جارجیا نے اِس حملے کے لئے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا، جب پوری دُنیا کی نظریں اولمپک کھیلوں کی افتتاحی تقریب پر لگی ہوئی تھیں۔ جارجیا کے صدر ساکاش وِلی پر الزام عاید کیا جا رہا ہے کہ اُيہوں نے اپنی فوجی کارروائی کے لئے جان بوجھ کر یہ وقت چُنا۔ جارجیا نے کہا ہے کہ اُس نے اپنی سرزمین پر کم از کم چار روسی جنگی طیارے مار گرائے ہیں۔ تفلیس حکومت کے مطابق روس تاک کر جارجیا کی اہم تنصیبات کو نشانہ بنا رہا ہے اور اِن حملوں میں کم از کم سات افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ جنوبی اوسیتیا نے 1992ء میں جارجیا سے علٰیحدگی کا اعلان کر دیا تھا اور تب سے عملاً آزاد اور خود مختار ہے۔ تاہم بین الاقوامی سطح پر اِسے جارجیا کا ہی حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ دو بار، 1992ء میں اور 2006ء میں ہونے والے ریفرینڈمز میں جنوبی اوسیتیا کے شہریوں نے جارجیا سے الگ ہونے کے حق میں ووٹ دئے، تاہم بین الاقوامی سطح پر اِن ریفرینڈمز کو تسلیم نہیں کیا گیا۔