’جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے‘
23 مئی 2016ملااختر منصور کی ہلاکت کے کئی گھنٹوں بعد بھی
پاکستانی حکام باضابطہ طور پر اس ہلاکت کی تصدیق
کرنے سے قاصر ہیں۔ ملکی وزیرِ اعظم نواز شریف برطانیہ
میں تشریف فرما ہے جب کہ قومی سلامتی کے مشیر بھی
بیرونِ ملک ہیں۔
بلوچستان حکومت کے ایک اعلیٰ افسر نے نام نہ بتانے کی
شرط پر کہا ،’’اس معاملے کو براہ راست اسلام آباد دیکھ رہا ہے۔
ہمیں اس حوالے سے کوئی علم نہیں ہے۔ آپ وزارت خارجہ
یا وزراتِ داخلہ سے اس سلسلے میں رابطہ کریں۔‘‘وزیر اعظم
کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیزسے متعدد بار فون
پر رابطہ کرنی کی کوشش کی گئی، جو کارگر ثابت نہ
ہوئی جب کہ دفترِ خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کسی
اجلاس میں مصروف ہونے کی وجہ سے اس مسئلے پر بات
نہیں کر سکے۔
پاکستان کے ذرائع ابلاغ نے کل رات اورآج دن میں بھی
کئی مرتبہ ملا منصور کی ہلاکت پر بحث کی جب کہ آج متعدد
اخبارات نے اس پر اداریے بھی لکھے ہیں۔ حکومتی حلقوں
میں ملا منصور کی ہلاکت کے حوالے سے خاموشی ہے اور
بظاہر ایسی کوئی کوشش نظر نہیں آتی کہ نوشکی سے
ملنے والی دوسری لاش جو ممکنہ طور پر ملا منصور کی
ہوسکتی ہے، اس کا کوئی ڈی این اے کرایا جائے۔
دوسری لاش کی حوالگی کے لیے بھی کسی نے ابھی تک
رابطہ نہیں کیا ہے۔
وزیرِ اعظم نواز شریف نے اتوار کو لندن میں ذرائع ابلاغ
سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات کا تو اعتراف کیا کہ
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے انہیں فون کر کے ڈرون
حملے کی اطلاع دی تھی لیکن ملا منصور کی ہلاکت کی
تصدیق میاں صاحب نے بھی نہیں کی۔ تاہم انہوں نے حسب
روایت ڈرون حملوں کو پاکستان کی خودمختاری کے خلاف
قرار دیا۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے ایک حصے نے دعویٰ
کیا ہے کہ مرنے والا دوسرا شخص ولی محمد تھا۔ جس نے
کراچی میں ایک فلیٹ بھی خریدا ہوا تھا۔ ذرائع ابلاغ کے
مطابق ولی محمددو ہزار دس میں اس فلیٹ میں رہا اور بعد میں
اسے کرائے پر دے دیا گیا۔ ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے
کہ حسا س اداروں نے اس اسٹیٹ ایجنٹ کو حراست میں لے
لیا ہے، جس نے ولی محمد کو یہ فلیٹ دالوایا تھا۔
تجزیہ نگارورں کا خیال ہے کہ ملا منصور کی ہلاکت سے
پاکستان مشکلات میں گھر سکتا ہے۔ دفاعی تجزیہ نگار جنرل
ریٹائرڈ طلعت مسعود نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’امریکا
اس بات پر خفا ہو سکتا ہے کہ ملا منصور پاکستانی علاقے
میں مارا گیا جب کہ طالبان اس شک میں مبتلا ہوسکتے ہیں کہ
ملا منصورکی مخبری کی گئی ہے۔ اب ہمارے پاس اس کے
علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے کہ ہم طالبان کو مزاکرات
کی میز پر لانے کی کوشش کریں اور اگر وہ راضی نہ ہوں
تو پھر ہمیں بین الاقوامی برادری کے ساتھ جانا چاہیے۔ ہم
پہلے ہی بہت سی مشکلا ت کا شکار ہیں۔ ایران، بھارت
اور افغانستان پہلے ہی ہم سے نا خوش ہیں۔ امریکا سے تعلقات
بھی کشید ہ چل رہے ہیں۔ ایسے مرحلے پر ہمیں بہت سوچ
بچار کے بعد موثر پالیسی بنانی چاہیے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ملا منصور کی
ہلاکت کا ردِ عمل افغانستان میں ہوسکتا ہے لیکن پاکستان
میں ایسے کسی ردِ عمل کا امکان نہیں ہے۔
وفاقی اردو یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر توصیف
احمد نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’اب امریکا
پاکستان پر ڈاکڑ شکیل آفریدی کی رہائی اور حقانی نیٹ
ورک کے خلاف کارروائی کے لیے مذید دباؤ ڈالے گا۔
پاکستان کی آرمی پر بھی اب دباؤ ڈالا جائے گا۔ میرے خیال
میں پاکستان کا ملا منصور کی ہلاکت میں کوئی ہاتھ نہیں
ہے۔ امریکا کا اپنا خفیہ اطلاعات کا نیٹ ورک ہے۔ وہ اسلام
آباد پر بھروسہ نہیں کرتا۔ اسی لیے واشنگٹن نے حملے
کے بعد پاکستان کو اطلاع دی۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر طالبان نے
سراج الدین حقانی کو امیر منتخب کیا تو پاکستان کے لیے
اور زیادہ مسائل کھڑے ہو جائیں گے کیوں کہ سراج الدین
حقانی کو اسلام آباد کے قریب سمجھا جاتا ہے جب کہ امریکا
اسے دہشت گرد قرار دیتا ہے۔‘‘