جاپان:زلزلے اور سونامی کے ایک ماہ بعد بھی حالات ابتر
11 اپریل 2011ایک مہینہ پہلے آج ہی کے روز یعنی گیارہ تاریخ کو مقامی وقت کے مطابق سہ پہر دو بج کر چھیالیس منٹ پر جاپان میں ملکی تاریخ کا یہ شدید ترین زلزلہ آیا تھا، جس کے چند منٹ بعد ہی سمندر میں جنم لینے والی کئی کئی میٹر بلند سونامی لہروں نے ساحلی علاقوں میں تباہی مچا دی تھی۔
اِس دہری آفت کے نتیجے میں فوکوشیما ڈائچی جوہری پاور پلانٹ کو شدید نقصان پہنچا تھا اور وہاں کے مختلف ری ایکٹرز میں دھماکوں کے بعد سے اِس ایٹمی بجلی گھر کی منتظم ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی ٹیپکو ابھی تک وہاں سے تابکاری کے اخراج کو روکنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
جاپان میں اتوار دَس اپریل تک کے اعداد و شمار کی روشنی میں جاری کیے گئے سرکاری بیانات کے مطابق زلزلے اور سونامی کے باعث تیرہ ہزار تیرہ افراد ہلاک ہوئے جبکہ 14 ہزار چھ سو آٹھ افراد بدستور لاپتہ ہیں۔ نیشنل پولیس ایجنسی کے مطابق اٹھارہ مختلف علاقوں میں دو ہزار تین سو ساٹھ ہنگامی رہائشوں کا انتظام کیا گیا ہے، جہاں اُن تقریباً ایک لاکھ 51 ہزار شہریوں کو ٹھہرایا گیا ہے، جنہیں محفوظ مقامات پر منتقل کیا جانا پڑا تھا۔
اس دوران ایک وقت ایسا بھی آیا تھا، جب ہنگامی رہائش گاہوں میں مقیم جاپانی شہریوں کی تعداد بڑھ کر ساڑھے چار لاکھ تک بھی پہنچ گئی تھی اور اِن شہریوں کو پانی، خوراک، ایندھن اور بنیادی اَشیائے ضرورت کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
NHK ٹیلی وژن نے اپنی رپورٹوں میں بتایا ہے کہ ایواٹے، میاگی اور فوکوشیما میں مقامی حکومتوں نے 62 ہزار عارضی رہائش گاہیں تعمیر کرنے کی درخواست کر دی ہے۔ متعلقہ وزارت کا کہنا ہے کہ سات ہزار آٹھ سو مکانوں کی تعمیر پر کام جاری ہے، جو اُس تعداد کا محض تیرہ فیصد ہے، جس کی دراصل درخواست کی گئی ہے۔
اتوار کو جاپانی وزیر اعظم ناؤتو کان ایک مختصر دورے پر ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی ایک ایسی بندرگاہ پر گئے، جسے زلزلے اور سونامی کے نتیجے میں سخت نقصان پہنچا تھا۔ وہاں اظہارِ خیال کرتے ہوئے اُنہوں نے وعدہ کیا کہ اُن کی حکومت 70 ہزار عارضی گھر تعمیر کرے گی۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: ندیم گِل