جاپانی معیشت پر کساد بازاری کے سائے
27 فروری 2009عالمی اقتصادی بحران کے باعث دنیا بھر میں جاپانی کاروں کی مانگ میں زبردست کمی ہوئی ہے اور ساتھ ہی ہائی ٹیک مصنوعات کی طلب بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔ ٹوکیو میں سرکاری اعداد شمار کے مطابق جاپان سال رواں کے دوران عالمی جنگ کے بعد سے آج تک کی شدید کساد بازاری کا شکار رہے گا۔
جاپان کے اقتصادی تحقیقی ادارے دائی ایچی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ایک ماہر ہِدیو کمانو کہتے ہیں:’’ مالیاتی بحران کی خاص بات کساد بازاری میں مستقل اور مسلسل اضافہ ہے اس مالیاتی بحران کی گہرائی اور بھیلاؤ اتنا زیادہ ہے کہ یہ 2000میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں نظر آنے والے بحران سے بھی شدید ہو چکا ہے۔ کیونکہ نو برس قبل اس بحران سے صرف الیکٹرانک مصنوعات متاثر ہوئی تھیں۔‘‘
جاپانی وزیر اعظم تارو آسونے ٹوکیو میں پارلیمان سے اپنے خطاب کے دوران خبردار کیا ہے کہ ملکی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کے لئے شاید تین برس سے بھی زائد کا عرصہ درکار ہو گا۔
ٹوکیو حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق صنعتی پیداوار کی طلب میں مسلسل کمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں جاپانی مصنوعات کی طلب میں کمی 9.8 فیصد تھی اور جنوری میں یہ مزید کم ہو کر دس فیصد تک جا پہنچی تھی۔
کارسازی کی جاپانی صنعت کے مطابق طلب میں مستقل کمی کا یہ سلسلہ جاری ہے اور اسی سال جنوری میں جاپانی کاروں کی فروخت میں 41 فیصد کمی دیکھی گئی جو 1967 کے بعد سے سالانہ بنیادوں پر سب سے بڑی کمی ہے۔
امریکہ جاپانی کاروں کی ایک بڑی منڈی ہے اور جاپانی موٹر ساز اداروں کی ایسوسی ایشن کے اعداد وشمار کے مطابق امریکہ میں جاپانی کاروں کی مانگ میں 76.5 فیصد کمی آ چکی ہےجب کہ یورپ میں یہ کمی 63.2 فیصد بنتی ہے۔
جاپانی وزارت محنت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ملکی صنعتوں پر مالیاتی بحران کے اثرات جاپان میں ایک لاکھ 60 ہزار غیر مستقل ملازمین کے بے روزگار ہو جانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس وزارت کا یہ بھی کہنا ہے کہ رواں سال مارچ کے مہینے تک کئی کاروباری اداروں کو اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں مجبورا کمی کرنے جیسا مسئلہ پیش آ سکتا ہے۔
جاپان میں جنوری میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کر مجموعی طور پر 8.2 فیصد ہو چکی ہے۔
جاپانی وزیر محنت Yoichi Masuzoe نے پارلیمان میں اپنے خطاب میں کہا کہ ’’ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ہمیں اپنی پوری کوشش کر کے ان افراد کی ملازمتوں کو بچانا ہو گا۔ ہمیں ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنا ہوں گے تاکہ کارکن بھی زندہ رہ سکیں۔‘‘