جاپان کی اپنے امن پسند آئین میں ترمیم کی متنازعہ خواہش
11 جولائی 2016دائیں بازو کے قدامت پسند سیاستدان نے اس امر پر زور دیا ہے کہ اب ملک کے امن پسند آئین میں ترمیم پر بحث مباحثہ شروع کر دیا جانا چاہیے۔ آبے کے مخلوط حکومتی اتحاد نے ایوانِ بالا کے اتوار کو منعقدہ انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔ آبے کے حکومتی اتحاد میں شامل دیگر قدامت پسند قوتیں بھی آئینی ترمیم کی حامی ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو آبے کو اب ایوان بالا میں وہ دو تہائی حمایت حاصل ہے، جو اس آئینی ترمیم کو منظور کروانے کے لیے درکار ہے۔
ساتھ ہی ایوانِ زیریں میں بھی حکومتی اتحاد اپنی زبردست اکثریت کی بدولت اس پوزیشن میں ہے کہ اُس امن پسند آئین میں ترمیم کر سکے، جو دوسری عالمی جنگ میں جاپان کی شکست کے بعد اختیار کیا گیا تھا۔
اُدھر چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا نے فوری طور پر کہا ہے کہ جاپانی حکومتی اتحاد کی یہ کامیابی علاقائی استحکام کے لیے ایک خطرہ ہے۔ واضح رہے کہ ماضی میں جاپان خطے میں جس فوجی جارحیت کا مظاہرہ کرتا رہا ہے، اُس کی یادیں آج بھی چین میں تازہ ہیں۔
آبے نے کہا کہ آئین میں یہ ترمیم کروانا اُن کی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (LDP) کے اہم ترین مقاصد میں سے ایک ہے لیکن یہ کہ اس مقصد کا حصول اتنا آسان بھی نہیں ہو گا۔ ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں کی دو تہائی اکثریت کی حمایت کے ساتھ ساتھ ایک عوامی ریفرنڈم میں اکثریت کی حمایت بھی درکار ہو گی۔ ماہرین بھی آبے کی اس رائے سے متفق ہیں کہ اس ترمیم کے لیے اتفاقِ رائے کا حصول بہت مشکل ہو گا۔
نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے اعزازی پروفیسر گیری کرٹِس نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ گو جاپان کے حکومتی اتحاد کو پہلی مرتبہ دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت حاصل ہے لیکن کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہوتا، جس پر دو تہائی اکثریت متتفق بھی ہو سکے۔‘‘ حکومتی اتحاد میں شامل ایک چھوٹی جماعت کے سربراہ ناتسوؤ یاماگُوچی نے تو یہ کہہ بھی دیا ہے کہ اس ترمیم کے حوالے سے جلد کسی پیشرفت کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
جاپان میں دائیں بازو کی قوتیں مسلسل زور پکڑتی جا رہی ہیں۔ آبے کا موقف یہ ہے کہ موجودہ امن پسند آئین کسی آزاد قوم کے شایانِ شان نہیں ہے کیونکہ یہ 1946ء کے بعد قابض طاقت امریکا کی جانب سے جاپان پر مسلط کیا گیا تھا۔ ناقدین کے خیال میں اس ترمیم کے بعد زیادہ امکان یہ ہے کہ جاپان مزید ایک جمہوری اور آزاد ملک نہیں رہے گا۔