"جبری گمشدگیاں انسانیت کے خلاف جرائم ہیں"
12 فروری 2021کیمپ میں دس لاپتہ بلوچ افراد کی رشتہ دار خواتین احتجاج پر بیٹھی ہیں۔ ان میں گمشدہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی صاحبزادی سمی بلوچ بھی شامل ہیں۔ انہوں نے وہاں آئے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ حق و انصاف کے لیے آواز اٹھائیں۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ ان کے عزیزواقارب کی فوری بازیابی کا حکم دیں۔
حالیہ برسوں میں پاکستان میں ملک کے مختلف شہروں میں جبری گمشدگیوں کے خلاف بھوک ہڑتالیں، مظاہرے اور لانگ مارچ ہوتے رہے ہیں. لیکن یہ روش ترک ہونے کی بجائے بظاہر بڑھتی گئی ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کے سابق سربراہ اور عوامی نیشنل پارٹی کے سابق رہنما افراسیاب خٹک نے بھی جمعے کو بھوک ہڑتالی کیمپ کا دورہ کیا۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ "جبری گمشدگیاں انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔ اس کلچر کا خاتمہ ہونا چاہییے۔ یہ لاقانونیت ہے۔"
انہوں نے پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کا نام لیے بغیر کہا کہ، "میں سمجھتا ہوں کہ آج نہیں تو کل ان لوگوں کے خلاف ضرور قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔ بہت طاقتور لوگ بھی آخرکار قانون کی گرفت میں آ جاتے ہیں۔"
اس سے قبل جمعرات کو پشتون تحفظ مومنٹ کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے بھی بھوک ہڑتالی کیمپ کا دورہ کرکے متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا تھا۔
جبری گمشدگیاں کیسے عام ہوئیں؟
پاکستان میں پندرہ سال پہلے تک جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کا معاملہ بلوچستان کی حد تک محدود سمجھا جاتا تھا۔ پھرخیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں میں مبینہ طور پر ریاستی اہلکاروں کی طرف سے لوگوں کو اٹھا کر غائب کرنے کی شکایتیں عام ہوئیں۔
حالیہ برسوں میں سندھی قوم پرستوں اور کراچی میں ایم کیو ایم سے تعلق کے شک میں بھی درجنوں لوگ لاپتہ ہونے لگے۔ پاکستان میں شیعہ برادری کو بھی شکایت رہی ہے کہ ان کے نوجوانوں کو بھی محض شک کی بنیاد پر کئی کئی ماہ کے لیے غیرقانونی طور پر اٹھا کر غائب کیا جاتا رہا ہے۔
فوج کا موقف
پاکستان میں فوج کے قریبی حلقوں کا خیال ہے کہ جبری گمشدگیوں کا مسئلہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں اور بعض قوتیں انسانی حقوق کی آڑ میں اس مسئلے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں۔
ان حلقوں کا خیال ہے کہ ملک و قوم کی سلامتی اور بیرونی مداخلت سے نٹمنے کے لیے ہر ملک میں انٹیلیجنس اداروں کو اس نوعیت کی کارروائیاں کرنی پڑتی ہیں۔
فوج اور انٹیلیجنس اداروں کی نمائندگی کرنے والے تجزیہ نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ جنہیں "لاپتہ" کہا جاتا ہے ان میں سے دراصل کئی ایک لوگ ملک سے فرار ہوجانے والے غیرملکی ایجنٹ ہیں۔
تاہم پاکستان کے سیاسی اور سماجی حلقوں کی نظر میں یہ بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ ہے جو وقت کے ساتھ بگڑتا گیا ہے۔
ایک وقت تھا پاکستانی میڈیا میں جبری گمشدگیوں کے مسئلے پر کھل کر بحث ہوتی تھی۔ لیکن بڑھتی ہوئی قدغنوں کے باعث اب اس معاملے پر خبر دینے اور بات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔
سیاسی و سماجی غم و غصہ
عوامی نیشنل پارٹی کے سیکٹری جنرل میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ ہم اسلام آباد میں اس احتجاج کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے اور خود اے این پی بلوچستان کے ترجمان اسد خان اچکزئی بھی کئی مہینوں سے لاپتہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اے این پی ہر قسم کی جبری گمشدگیوں کی مذمت کرتی ہے۔
ادھر بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے رکن صوبائی اسمبلی ثنا بلوچ نے کہا کہ جبری طور پر گمشدہ کیے جانے والے افراد کی جلد از جلد واپسی ان کی پارٹی کے بنیادی مطالبات کا حصہ ہے۔
ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں حکومت پاکستان کی مفاہمتی کوششوں کے نتیجے میں بیس کے قریب لاپتہ افراد کی رہائی ممکن ہوئی۔ تاہم انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ اسلام آباد میں احتجاج پر موجود بلوچ بیٹیوں کو سُنے اور ان کے رشتہ داروں کو فوری طور پر رہا کرائے۔