جب تصویریں بولتی ہیں!
برلن کے فوٹوگرافر ڈینیئل زوننٹاگ نے مہاجرین کی حالت زار کو میڈیا میں اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس تناظر میں انہوں نے تصویروں کے ذریعے المناک کہانیاں بیان کیں۔ ان کی فوٹو سیریز ’ان کے بھی نام ہیں‘ کو کافی پذیرائی ملی ہے۔
یہ کون لوگ ہیں؟
شہد نامی یہ بچی برلن کے اُس بین الاقوامی کانگریس سینٹر میں رہائش پذیر ہے، جہاں ڈینیئل زوننٹاگ نے مہاجر بچوں کی تصاویر کی ایک سیریز تخلیق کی ہے۔ زوننٹاگ کے بقول، ’’میں ایسے لوگوں کو متعارف کرانا چاہتا ہوں، جنہیں مہاجر کہا جاتا ہے۔ لیکن ان کے نام ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جب لوگ ان مہاجرین سے ملتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ ان میں بہت سی اقدار مشترک ہیں۔‘‘
یادوں کا بوجھ
شامی کرد لڑکی الہام کی عمر آٹھ برس ہے۔ زوننٹاگ نے اس بچی کی آنکھوں میں گہری اداسی کو محسوس کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ لڑکی جب اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلتی اور ہنستی ہے تو اس کی آنکھوں کی افسردگی کم ہو جاتی ہے لیکن ان معصوم آنکھوں میں خوشی اور غمی کا امتزاج ایک خاص تاثر قائم کر دیتا ہے۔
انتظار کا کھیل ختم ہی نہیں ہوتا
چار سالہ علی کا تعلق عراق سے ہے۔ اس کے کنبے کی طرف سے دائر کردہ پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی ہے لیکن اب اس بچے کے گھر والوں کی کوشش ہے کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جائے۔ برلن کے بین الاقوامی کانگریس سینٹر میں قائم مہاجر کیمپ میں مقیم کئی مہاجرین برسوں سے اپنی پناہ کی درخواستوں پر حتمی فیصلے کے منتظر ہیں۔
مسائل کا سیلاب
آٹھ سالہ زینب اور چھ سالہ رقیہ اپنے گھر والوں کے ساتھ عراق سے ہجرت کر کے جرمنی پہنچیں۔ فوٹو گرافر زوننٹاگ کے مطابق برلن کا یہ مہاجر کیمپ مسائل کا گڑھ بنتا جا رہا ہے، جہاں انتظامیہ کی کوششوں کے باوجود مشکلات برقرار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وجہ سے اجنبی افراد سے نفرت میں اضافہ تو ہو ہی رہا ہے لیکن ساتھ میں کئی ذاتی سانحات بھی رونما ہو رہے ہیں۔
جرمن زبان سیکھنے کی کوشش
ڈینیئل زوننٹاگ اور زینب۔ زوننٹاگ کہتے ہیں کہ یہ بچی اپنی عمر کے اعتبار سے بہت زیادہ اسمارٹ ہے، ’’اس کیمپ میں مقیم دیگر بچوں کے مقابلے میں زینب نے جرمن زبان بہت جلد ہی سکیھ لی ہے۔ لیکن بڑی عمر کے لوگوں کے لیے نئی زبان سیکھنا مشکل ہے۔‘‘ زوننٹاگ کہتے ہیں کہ بالغوں کو جرمن سکھانے کے لیے خصوصی منصوبہ جات شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم میں مماثلتیں زیادہ ہیں
چھ سالہ علمہ اور پس منظر میں تینتیس سالہ احمد، جو اس بچی کے والد ہیں۔ زوننٹاگ کے مطابق مہاجرین کی مدد کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مہاجر کیمپوں میں جایا جائے، ان سے ملاقاتیں کی جائیں اور ان کی مدد کی جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ سبھی لوگ اپنے کنبوں کے لیے ایک محفوظ مستقبل کے خواہاں ہوتے ہیں، ’’جب ہم دوسرے لوگوں سے ملتے ہیں تو ہی ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم میں بہت سے مماثلتیں ہیں۔‘‘
شہ سرخیوں میں چھپے بچے
سات سالہ زہرہ کا تعلق عراق سے ہے لیکن شورش سے فرار ہو کر وہ بھی اپنے والدین کے ہمراہ جرمنی پہنچ چکی ہے۔ زوننٹاگ کا کہنا ہے کہ زہرہ شرارتی اور خوابوں میں رہنے والی بچی ہے، جو ایک کھلے دل کی مالک ہے۔
جرمنی میں فیملی لائف
چھ سالہ آیہ اور اس کا سات سالہ بھائی حمزہ۔ یہ دونوں شام سے مہاجرت کر کے جرمنی پہنچے ہیں۔ زوننٹاگ کے مطابق حمزہ ایک انتہائی حساس لڑکا ہے۔ اس کے والدین بہت پختہ عزم کے مالک ہیں، اس لیے زوونٹاگ کو یقین ہے کہ حمزہ بھی بڑا ہو کر ایک ایماندار اور مضبوط شخصیت کا مالک بنے گا۔
کانفرنس سینٹر سے مہاجر کیمپ تک
برلن کا بین الاقوامی کانگریس سینٹر دنیا کے بڑے کانفرنس سینٹرز میں شمار کیا جاتا ہے۔ گزشتہ برس اس سینٹر میں مہاجرین کو رہائش فراہم کرنا شروع کر دی گئی تھی۔ اس سینٹر میں چھ سو مہاجرین مقیم ہیں، جن کا تعلق شام، عراق، ایران، افغانستان اور دیگر ممالک سے ہے۔