جب طالبان بال اور داڑھیاں منڈوا کر فرار ہوئے
6 جولائی 2014اعظم خان کا شمار شمالی وزیرستان کے مرکزی مقام میران شاہ کے بہترین حجاموں میں ہوتا تھا۔ فوجی آپریشن کی وجہ سے وہ بھی وہاں سے نقل مکانی کر کے بنوں پہنچے ہیں۔ اعظم خان کے مطابق فوجی کارروائی سے ایک ماہ پہلے ہی ان کا کاروبار بہت بڑھ گیا تھا۔
اعظم خان کا بنوں کی ایک دکان پر بال کاٹتے ہوئے کہنا تھا، ’’میں نے فوجی آپریشن سے پہلے سات سو سے زائد مقامی اور ازبک عسکریت پسندوں کے بال اور داڑھیاں کاٹیں۔‘‘
اعظم خان کے بقول شمالی وزیرستان کے عسکریت پسند بالوں کا اسٹائل اپنے مقتول لیڈر حکیم اللہ محسود جیسا رکھنا پسند کرتے تھے لیکن مئی کے مہینے میں کئی طالبان رہنماؤں نے ان سے اپنا ہیئر اسٹائل تبدیل کرنے کے لیے کہا: ’’طالبان نے مجھ سے کہا کہ میں ان کے بال اور داڑھیاں بہت چھوٹی کر دوں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ خلیجی ممالک جانا چاہتے ہیں اور پاکستانی ایئر پورٹس پر مسائل سے بچنا چاہتے ہیں۔‘‘
اعظم خان کے مطابق ان کے پاس بال کٹوانے کے لیے آنے والے ازبک اور تاجک بھی تھوڑی بہت مقامی زبان بولتے تھے۔ وہ اسلام آباد جانے کے لیے کلین شیو کروانا چاہتے تھے۔
فرانسیسی خوشبوئیں
افغان سرحد کے بالکل قریب اس ناہموار پہاڑی علاقے میں گزشتہ کئی برسوں سے عسکریت پسندوں کے ’محفوظ ٹھکانے‘ موجود ہیں۔ پہلے وہاں کے مقامی افراد بھی طالبان کے ’لائف اسٹائل‘ پر کم ہی بات کرتے تھے۔ اس علاقے کو ’طالبان کی جاگیر‘ سمجھا جاتا تھا اور مقامی افراد کو ہر وقت ان کی سزاؤن کا ڈر بھی رہتا تھا۔
عوامی سطح پر طالبان ہمیشہ مغرب کی مخالفت کرتے آئے ہیں لیکن جہاں تک اشیائے استعمال کا تعلق ہے، انہیں زیادہ تر غیر ملکی اور مغربی اشیاء ہی پسند تھیں۔
حکمت اللہ خان کی دکان بھی میران شاہ ہی میں تھی۔ وہ بتاتے ہیں، ’’وہ غیر ملکی برانڈ کے شیمپو، صابن اور خوشبوئیں خریدنے کے بہت شوقین تھے۔ وہ زیادہ تر فرانسیسی اور ترک پرفیومز، صابن اور باڈی سپرے خریدنے کا شوق رکھتے تھے۔‘‘
دتّہ خیل میں ہول سیل کا کام کرنے والے محمد ظریف کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’عسکریت پسند زیادہ تر برطانوی ڈیٹرجنٹ اور امریکی کوکنگ آئل بڑی مقدار میں خریدتے تھے۔ یہ زیادہ تر سمان دبئی سے سمگل ہو کر آتا ہے۔‘‘
عسکریت پسند کہاں گئے ؟
پاکستان کے اتحادی ممالک، خاص طور پر امریکا نے ایک عرصے سے شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کا مطالبہ کر رکھا تھا۔ پاکستانی آرمی نے بھی یہی کہا ہے کہ وہ بلا تفریق تمام عسکری گروپوں کو نشانہ بنائے گی۔ لیکن پاکستانی فوج کو ابھی تک کسی بھی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جس سے یہ تاثر بھی پیدا ہوتا ہے کہ عسکریت پسند آپریشن سے پہلے ہی علاقے سے نکل گئے تھے۔ اگر ایسا وقعی ہوا ہے تو اس فوجی آپریشن کی افادیت میں واضح کمی ہو گی۔ پاکستان آرمی کے بقول اس فوجی کارروائی میں اب تک چار سو سے زائد عسکریت پسند ہلاک ہو چکے ہیں اور ان کے درجنوں خفیہ ٹھکانے تباہ کر دیے گئے ہیں لیکن ان کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔ اس فوجی آپریشن کے طویل المدتی اثرات کے بارے میں فی الحال کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ملٹری اور طالبان ذرائع کے مطابق 80 فیصد عسکریت پسند علاقہ چھوڑ کر افغانستان فرار ہو چکے ہیں۔ خفیہ ذرائع کے مطابق آپریشن سے پہلے اس علاقے میں تقریبا 10 ہزار عسکریت پسند موجود تھے اور اب ان کی تعداد تقریبا دو ہزار ہے۔
ایک مغربی سفارت کار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’صاف ظاہر ہے کہ عسکریت پسند فوجی آپریشن سے آگاہ تھے اور وہ اس کے آغاز سے پہلے ہی فرار ہو گئے۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ فوجی کارروائی کے بعد کیا پاکستان حقانی نیٹ ورک اور دیگر گروپوں کو واپسی کی اجازت دے گا۔؟‘‘