1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ججوں کے لیے پلاٹس کی اسکیم پھر تنقید کی زد میں

3 جولائی 2023

ایک ہاؤسنگ سوسائٹی نے ججوں کو پلاٹس دینے کے لیے سوسائٹی کی ممبرشپ کی پیشکش کی ہے۔ کچھ ریٹائرڈ ججوں کا کہنا ہے کہ ججوں کو اس طرح کے پلاٹس بالکل نہیں ملنا چاہیں کیونکہ وہ قانونی و اخلاقی طور پر اس کے مستحق نہیں۔

https://p.dw.com/p/4TMLN
Supreme Court of Pakistan in Islamabad
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

حکومت کے مختلف ادارے ملازمین کی رہائشی سہولت کے لیے مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ اتھارٹی نے اسلام اباد کے سیکٹر ایف 14 اور ایف 15 میں قائم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، جس میں افسر شاہی کے افراد، وکلا اور ججوں کے لیے بھی کوٹا مختص کیا گیا ہے۔ 

انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ وفاقی ملازمین کی اس سوسائٹی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کو بھی اس سوسائٹی میں ممبرشپ کی پیشکش کی ہے اور اس حوالے سے ایک خط بھی لکھا ہے۔

یہ پیشکش اس حقیقت کے باوجود کی گئی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے فروری 2021 میں ججوں، وکلا اور افسر شاہی کے افراد کو اس طرح سے پلاٹ دینے کے عمل کو غیر قانونی اور غیر ائینی قرار دیا تھا۔

پلاٹس دینے کا عمل نا مناسب ہے

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے اس طرح ججوں کو پلاٹ دینے کا عمل انتہائی نامناسب ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”جب کوئی جج سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کا جج مقرر ہوتا ہے، تو اس کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مراعات کیا ہوں گی اور اس کی تنخواہ کیا ہوگی۔ لہذا کم تنخواہ یا کم سہولیات کا بہانہ کر کے اس طرح کے پلاٹ نہیں لیے جا سکتے۔‘‘

میں نے پلاٹ نہیں لیا

جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا تھا کہ ان کے دور میں بھی ججوں کے لیے اس طرح کی ایک ایسی اسکیم آئی تھی لیکن یہ کہ انہوں نے اس اسکیم میں پلاٹ نہیں لیا، ''مجھے یاد پڑتا ہے کہ کے ڈی اے اسکیم ون اے میں مجھے اس طرح کی پیشکش کی گئی تھی۔ مجھے میرے کچھ فاضل دوست ججوں نے اس بات پر قائل کرنے کی بھی کوشش کی کہ میں پلاٹ لے لوں لیکن میں نے ایسا نہیں کیا تھا۔‘‘

قیمتی زرعی اراضی پر رہائشی منصوبوں کی وبا

پاکستان: زراعت کی تباہی، ریئل اسٹیٹ کی چاندی

ساکھ خراب ہوتی ہے

سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن کے سابق صدر جسٹس ریٹائرڈ رشید اے رضوی کا کہنا ہے کہ اس طرح ججوں میں پلاٹ بانٹنے سے عدلیہ کے معزز اراکین کی ساکھ خراب ہوتی ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے حوالے سے ڈان اخبار نے یہ دعوی کیا کہ انہوں نے چاروں صوبوں میں چار مختلف پلاٹس لیے ہیں اور یہ کہ انہوں نے حلف نامہ بھی دائر کیا ہے۔ ڈان اخبار کو توہین عدالت کا نوٹس دیا گیا لیکن ڈان اخبار اپنے موقف پر قائم رہا، جس سے جسٹس نسیم حسن شاہ کی ساکھ کو بھی بری طرح نقصان پہنچا اور عدلیہ پر بھی سوالات اٹھنے شروع ہوئے۔‘‘

زمین اور پلاٹس بانٹنے کی تاریخ

جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا ہے کہ پلاٹس بانٹنے کی تاریخ بہت زیادہ پرانی نہیں ہے، ''سن 1960 کی دہائی میں جج کو ریٹائرمنٹ کے وقت 200 سے  تین سو ایکڑ زمین دی جاتی تھی۔ اس وقت آبادی کم تھی اور بہت ساری زمین خالی پڑی تھی۔ جہاں تک پلاٹ ملنے کے سلسلے کا تعلق ہے تو یہ گزشتہ کچھ دہائیوں سے شروع ہوا ہے۔‘‘

ججوں کی مراعات

جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا ہے کہ جب اس ملک میں ایک عام آدمی کو 80 یا 120 گز کا مکان رعایتی نرخ پر نہیں مل سکتا، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جج اور افسرشاہی کے افراد یا کسی اور شخص کو پلاٹ کیوں ملے، ''ججوں کو دوران سروس اچھی خاصی مراعات اور بہتر تنخواہ ملتی ہے انہیں اسی میں گزارا کرنا چاہیے۔‘‘

سرکاری اداروں کی رہائشی اسکیمیں زیر بحث

پاکستان میں پچاس لاکھ سستے گھر کیسے بنیں گے؟

اثر انداز ہونے کی ایک کوشش

جسٹس رشید اے رضوی کا کہنا ہے کہ غالبا ہاؤسنگ سوسائٹیز اس طرح کے پلاٹ ججوں کو اس لیے دیتی ہیں تاکہ انہیں کسی قانونی معاملے میں کوئی دقت پیش نہ ائے، ''لیکن اس طرح پلاٹس دینے سے یہ تاثر جاتا ہے کہ ججوں پہ اثر انداز ہوا جا رہا ہے۔ سن 2017 میں جب میں سپریم کورٹ بار ایسوسییشن کا صدر بنا تو مجھے معلوم ہوا کہ کچھ ججوں نے پلاٹس لیے ہیں، جو بار کے ممبرز بھی ہیں۔ میں نے ان سے بات چیت کر کے انہیں اس بات پہ راضی کیا کہ وہ یہ پلاٹ چھوڑیں۔‘‘

ججوں کے معیار زندگی پر بحث

پاکستان میں ججوں کے اثاثوں کے حوالے سے کئی بار بحث ملک کے طول و عرض پر گردش میں رہی ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بیٹے ارسلان افتخار کے معیار زندگی پر بہت سارے لوگوں نے تنقید کی تھی۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور ان کے گھر والوں کے معیار زندگی پر بھی مختلف حلقوں میں بحث ہوئی ہے۔ رشید اے رضوی کا کہنا ہے کہ جس طرح ایک عام رکن اسمبلی اپنے اثاثے ظاہر کرتا ہے بالکل اسی طرح ججوں کو بھی نہ صرف یہ بتانا چاہیے کہ ان کے پاس کتنے پلاٹس ہیں بلکہ ان کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ ان کے اثاثے کتنے ہیں۔

پلاٹس اور جج

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ پلاٹوں کے حوالے سے نہ صرف ایک فیصلہ موجود ہے بلکہ اس سے پہلے ایک چار رکنی بینچ، جس میں قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل تھے، نے بھی اس حوالے سے فیصلہ دیا ہے۔

ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے اکاؤنٹ منجمد

کچھ علاقوں میں جیو کی بندش ، وزیر اطلاعات کا افسوس کا اظہار

انعام الرحیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''قاضی فائز عیسیٰ نے بحیثیت چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کوئی پلاٹ نہیں لیا۔ بالکل اسی طرح سپریم کورٹ کے جج جسٹس جواد ایس خواجہ نے پلاٹ لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ججوں کو کوئی ایسی چیز نہیں دینی چاہیے، جو ان کی نوکری کے قواعد و ضوابط کے خلاف ہو۔ بالکل اسی طرح جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس منصور شاہ نے بھی پلاٹ لینے سے انکار کیا۔‘‘

انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا اور تمام فورمز پر اس مسئلے کو اٹھایا جائے، ''حال ہی میں چیئرمین سینٹ کی مراعات کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک طوفان اٹھا اور اب بظاہر نظر ارہا ہے کہ شاید سینٹ اس پر گھٹنے ٹیک دے۔ بالکل اسی طرح ججوں کے پلاٹس کے حوالے سے بھی مزاحمت ہونی چاہیے۔‘‘