’جدیدیت کے زہر‘ سے ناپید ہوتے جا رہے سپیرے
بھارت میں صدیوں سے سپیرے سانپوں کو پکڑتے آئے ہیں لیکن اب یہ پیشہ معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ سپیروں کی کمائی بھی دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے اور ان کی پہلے جیسی قدر بھی نہیں رہی۔
کون ہیں یہ سپیرے
سپیرا لفظ سانپ سے نکلا ہے اور یہ پراکرت زبان سے ماخوذ ہے۔ بھارت کے کچھ خاص قبائل سینکڑوں برسوں سے سانپ پکڑ کر اپنا پیٹ پالتے آئے ہیں اور اسی وجہ سے انہیں بھی سپیرا قبائل کہا جاتا ہے۔ ان کا علم نسل در نسل تجربے کے ساتھ آگے بڑھا ہے۔ عام طور پر سپیروں کے بچے دو سال کی عمر میں ہی سانپوں سے کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔
صدیوں پرانی دوستی
بھارت میں پائے جانے والے سانپوں کی درجنوں اقسام زہریلی ہوتی ہیں۔ لیکن شمالی ریاست اتر پردیش کے گاؤں بھاگ پور کے جوگی، سپیرے اور ان کے بچے ان سے نہیں ڈرتے۔ یہ ان سانپوں کی نفسیات کو سمجھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
نئی نسل کو علم کی منتقلی
بھاگ پور کے قبیلے کے سربراہ بابا ناتھ کے مطابق، ’’رات کو ہم سب ایک ساتھ بیٹھ کر ایک دوسرے کو سانپوں کے علم کے بارے میں بتاتے ہیں۔ بارہ سال کی عمر تک بچے سانپوں کے بارے میں سب کچھ سیکھ چکے ہوتے ہیں۔‘‘
ایک دوسرے کے دوست
بابا ناتھ کہتے ہیں، ’’ہم بچوں کو بتاتے ہیں کہ ایک سانپ کو اس کی قدرتی رہائش گاہ سے سات ماہ کے لیے ہی باہر رکھا جا سکتا ہے۔ سات ماہ سے زیادہ عرصے کی دوری ٹھیک نہیں۔ مل کر کام کرتے وقت سانپ اور ہم ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہیں۔‘‘
زہر نہیں نکالتے
بابا ناتھ سانپوں کے زہریلے دانت توڑنے یا نکال دینے سے انکار کرتے ہیں، ’’ہم ان کو نقصان نہیں پہنچاتے کیوں کہ یہ تو ہمارے بچوں کی طرح ہیں۔ میں نے بچپن سے آج تک صرف ایک ہی بار سنا ہے کہ ایک آدمی کو سانپ نے کاٹا کیونکہ اس نے سانپ کو سات ماہ سے زیادہ وقت تک اس کی قدرتی رہائش گاہ سے باہر رکھا تھا۔‘‘
سانپوں کے بارے میں معلومات
یہ لوگ ایک لمحے میں ہی سانپ کی عمر، اس کی جنس اور اس کا علاقہ بتا دیتے ہیں۔ یہ جانتے ہیں کہ کون سا سانپ ان کے علاقے میں پایا جاتا ہے اور کون سا سانپ کسی دوسرے علاقے کا ہے۔
آمدنی میں کمی
بھارت کے ہزاروں دیہات میں آج بھی سانپ کے کاٹنے پر لوگ علاج کے لیے سپیروں کے پاس جاتے ہیں۔ سپیرے پانی اور جڑی بوٹیوں سے علاج کرتے ہیں، لیکن جہاں ڈاکٹر ہوتے ہیں، وہاں ان کا کاروبار ختم ہوتا جا رہا ہے۔
قانون کی مار
بھارت میں 1991ء میں سانپوں کو نچانے اور انہیں پکڑنے پر پابندی لگا دی گئی تھی لیکن اس پر عملدرآمد صحیح طریقے سے نہیں ہوتا۔ اب سانپوں کو رکھنا بھی قانونی جرم ہے۔ بھاگ پور قبلیے کے مطابق اس قانون کے ان پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اب سپیروں کے لیے روٹی کمانا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
کہاں جائیں، کیا کریں
راجستھان میں آباد سپیروں کے ایک قبیلے کے مطابق، ’’پہلے وہ گاؤں گاؤں جاتے تھے اور اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے لیکن اب اکثر گاؤں والے یا پولیس والے انہیں وہاں سے بھگا دیتے ہیں۔‘‘
شیوا کے پیروکار
بھارتی سپیرے خود کو ہندو مذہب کے دیوتا شیوا کے پیروکار کہتے ہیں۔ شیوا کی متعدد تصاویر ایسی ہیں، جن میں ایک کوبرا سانپ ان کے گلے میں لپٹا دیکھا جا سکتا ہے۔