جرمنی: اسکول میں خنزیر کے گوشت کا تنازعہ
25 جولائی 2019عوامی ردعمل اتنا شدید تھا کہ جرمن شہر لائپزگ کے دونوں اسکولوں کو کھانے میں دوبارہ خنزیر کا گوشت متعارف کرنا پڑے گا۔ ان دونوں کنڈرگارٹن نے مسلمان بچوں کی وجہ سے دوپہر کے کھانے میں خنزیر کا گوشت اور اس کی چربی سے بنائی جانے والی اشیاء نہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے بعد جرمنی بھر میں سوشل میڈیا پر ایک بحث کا آغاز ہو گیا تھا کہ یہ فیصلہ درست نہیں ہے اور جرمن معاشرے میں مسلمانوں کا اثرو رسوخ بڑھتا جا رہا ہے۔
امیگریشن مخالف دائیں بازو کے حلقوں کے نفرت انگیز بیانات کی وجہ سے اب ان کنڈر گارٹن کی حفاظت کے لیے پولیس تعینات کر دی گئی ہے۔
اس بارے میں سب سے پہلے جرمن اخبار بلڈ نے ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ خبر میں اسکول کی طرف سے والدین کو جاری کردہ خط کا حوالہ دیا گیا تھا، جس میں اسکول کا کہنا تھا کہ، ''بدلتی ہوئی دنیا کے احترام میں پندرہ جولائی سے بچوں کو پورک فری کھانا اور اشیاء فراہم کی جائیں گی۔‘‘
شدید عوامی ردعمل اور نفرت انگیز پیغامات کے بعد ان دونوں کنڈر گارٹن کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے، ''اس قدر غصے کے بعد ہم نے اپنے فیصلے پر عمل درآمد روک دیا ہے۔‘‘
جرمنی کے اسکولوں اور ڈے کئیر سینٹرز میں بہت سے بچے مذہبی، طبی یا دیگر وجوہات کی بنیاد پر گوشت نہیں کھاتے اور انتظامیہ کی طرف سے ان کے لیے متبادل کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب جرمنی میں مسلمانوں اور یہودیوں کی مرکزی تنظیموں نے تمام فریقین کو اعتدال پسندی سے کام لینے پر زور دیا ہے۔ جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی کونسل کے سربراہ جوزف شُوسٹر کا جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ، ” کسی اقلیت کے خلاف نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ ایک ادارے میں کھانے کا خیال رکھا گیا ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر یہ ایک مثبت پیش رفت ہے کہ اقلیتوں کا خیال کیا جا رہا ہے اور اس حوالے سے سوچا جا رہا ہے لیکن ''خنزیر کے گوشت پر مکمل پابندی عائد کرنا کچھ زیادہ ہی ہے۔‘‘ جوزف شوسٹر کا کہنا تھا کہ جو بچے کسی وجہ سے کوئی گوشت نہیں کھاتے تو ان کے لیے اس کا متبادل فراہم کیا جانا چاہیے۔
جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی تنظیم نے خبردار کیا ہے کہ اسے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔
ا ا / ش ج (ڈی پی اے، ڈی ڈبلیو)