1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

جرمنی، انرجی صارفین کو ریلیف دینے کی کوشش

عاطف بلوچ روئٹرز
11 ستمبر 2022

موسم سرما سے قبل جرمن صارفین پر انرجی مصنوعات کا مالی بوجھ تین گنا زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس صورتحال میں عوام کو ریلیف دینے کی خاطر برلن حکومت اضافی اقدامات کا منصوبہ رکھتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4GRON
Symbolbild Tankstelle
تصویر: Vincent Mouchel/MAXPPP/dpa/picture alliance

جرمنی میں انرجی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور اس پر نئے گیس ٹیکس کی وجہ سے سردیوں کی آمد سے قبل ہی صارفین کے فیول بلز میں تین گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال میں جرمن حکومت انرجی کمپنیوں پر ونڈفال ٹیکس لگانے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ صارفین کو اضافی ریلیف مہیا کیا جا سکے۔

انرجی کے بحران کے پیش نظر اٹلی اور برطانیہ نے انرجی کمپنیوں پر اسی طرح کے ٹیکس عائد کر دیے ہیں جبکہ اسپین نے اس صورتحال سے نمٹنے کی خاطر ایک عارضی ٹیکس سسٹم متعارف کرایا ہے۔

تاہم جرمنی میں حکمران اتحاد کے لیے اس طرح کے اقدامات متعارف کرانا ایک حساس اور پیچیدہ معاملہ ہے۔ جرمن حکومت کو نہ صرف سیاسی اعتبار سے سخت اپوزیشن کا سامنا ہو گا بلکہ آئینی رکاوٹیں بھی اس عمل کا مشکل بنا سکتی ہیں۔

جرمنی میں ونڈ فال ٹیکس کیوں؟

ونڈفال ٹیکس کے تحت کمپنیوں کے بھاری منافع پر ٹیکس عائد کیا جاتا ہے تاکہ اس مد میں بچائی گئی رقوم کو عوام کو ریلیف دینے کی خاطر استعمال کیا جا سکے۔

رواں برس کے دوران ہی جرمن حکومت صارفین کے لیے دو ریلیف پیکیج متعارف کرا چکی ہے۔ ساتھ ہی ملکی فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کم کرنے کی خاطر بھی فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ جرمن حکومت پہلے ہی مالی دباؤ کا شکار ہے۔

حکومتی اتحاد میں شامل پرو۔بزنس سیاسی جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے ملکی وزیر خزانہ کرسٹیان لِنڈنر کہہ چکے ہیں کہ عوام کو ریلیف دینے کی خاطر تیار کیا گیا کئی بلین یوروز مالیت کا ریلیف پیکج آئندہ برس میں استعمال میں لایا جائے گا۔

تاہم ونڈفال ٹیکس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس مخصوص بحرانی وقت میں عام صارفین کو بلوں کی مد میں سخت مشکلات کا سامنا ہے جبکہ انرجی کمپنیاں بڑا منافع کما رہی ہیں۔

کیا ونڈ فال ٹیکس منظور ہو سکے گا؟

جرمنی میں اس حوالے سے حکمران اتحاد میں ہی اختلاف پایا جا رہا ہے۔ حکومتی اتحاد میں شامل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اور گرین پارٹی اس منصوبے کے حق میں ہیں جبکہ اس اتحاد میں شامل تیسری سیاسی جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی ونڈفال ٹیکس کے مخالف ہے۔

ماحول دوست توانائی سے چلنے والا جرمن گاؤں

جرمن وزیر خزانہ لنڈنر کے مطابق ایسے کسی منصوبے کو عملی شکل دینے میں قانونی اور اقتصادی مسائل کے علاوہ بجٹ سے جڑی پیچیدگیاں بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا کیا گیا تو یہ مارکیٹ فورسز میں مداخلت کے مترادف ہو گا جبکہ اس سے جرمن ٹیکس سسٹم کی ساکھ بھی متاثر ہو گی۔

کئی جرمن صوبوں کی طرف سے جولائی میں بھی اس حوالے سے ایک کوشش کی گئی تھی تاہم جرمن پارلیمان کے ایوان بالا میں یہ ناکام ہو گئی تھی۔

جرمن عوام کا کیا کہنا ہے؟

اگست میں کرائے گئے ایک سروے کے نتائج بتاتے ہیں کہ 76 فیصد جرمن اس منصوبے کے حق میں ہیں۔

اس سروے کے مطابق ونڈفال ٹیکس کے حامیوں میں سب سے زیادہ لوگوں کا تعلق گرین (چوراسی فیصد) اور سوشل ڈیموکریٹ پارٹی (اٹھاسی فیصد) سے ہی تھا۔

فری ڈیموکریٹک پارٹی کے صرف اٹھاون فیصد رائے دہندگان نے اس منصوبے کے حق میں آواز بلند کی۔

اسی طرح جون میں کرائے گئے ایک اور سروے میں بھی 72 فیصد شرکا نے ونڈفال ٹیکس کی حمایت کی تھی۔

ونڈفال ٹیکس سے کون سی کمپنیاں متاثر ہوں گی؟

اس ٹیکس کی وجہ سے جرمنی میں تیل اور گیس کی مالک وہ سبھی کمپنیاں متاثر ہوں گی، جو اس بحرانی صورتحال میں بڑے بڑے منافع کما رہی ہیں۔ تاہم واضح رہے کہ جرمنی کی تمام انرجی کمپنیوں نے رواں برس کے دوران ونڈفال (یا بڑا) منافع نہیں کمایا ہے۔

ایسی کمپنیاں جو روس سے آئل اور گیس حاصل کر رہی تھیں، انہیں تو نقصان ہوا ہے۔ مثال کے طور پر یونیپر نامی کمپنی کو تو اپنے صارفین کی طلب کو پورا کرنے کی خاطر دیگر کمپنیوں سے زیادہ مہنگے داموں گیس اور آئل خریدنا پڑا۔

ماہر اقتصادیات اور جرمن پارلیمان کی فنانشل پالیسی کے محقق موریس ہوئیفگن نے روئٹرز کو بتایا کہ اس بحران میں بڑے منافع کمانے والی کمپنیاں RWE، ونٹرشیل، بی پی، شیل اور ای۔اون ہیں۔

کیا ونڈفال ٹیکس سے صورتحال بہتر ہو گی؟

اٹلی میں اس ٹیکس کی بدولت متوقع طور پر دس تا گیارہ بلین یورو جمع کیے جا سکتے ہیں۔ برطانوی وزیر خزانہ کے بقول اسی طرح کا ٹیکس آئندہ بارہ مہینوں میں ریونیوز کی مد میں پانچ بلین پاؤنڈز کے حصول کا باعث بن سکتا ہے۔

برلن میں واقع ٹیکس جسٹس نیٹ ورک کی طرف سے اگست میں شائع کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اگر جرمنی میں بھی یہ ٹیکس سسٹم تعارف کرا دیا جاتا ہے تو ایک سال کے عرصے میں گیارہ تا چالیس بلین یوروز بطور ریونیو جمع کیے جا سکتے ہیں۔

دوسری طرف ایفو سینٹر فار مائیکرو اکنامکس کے سربراہ آندریاس پیچل کا کہنا ہے کہ گو کہ اس طرح کے ونڈفال ٹیکس کی مد میں جرمن حکومت وقتی طور پر تو رقوم حاصل کر سکتی ہے لیکن اس کی وجہ سے مستقبل میں سرمایہ کاری کو شدید نقصان ہو گا۔

آندریاس نے اس منصوبے کو عوامیت پسندی کا ایک آلہ قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ یوں سیاسی طور پر عوامی حمایت تو حاصل کی جا سکتی ہے لیکن اس کے فائدے انتہائی قلیل المدتی ہوں گے۔

ماہر اقتصادیات آندریاس کا کہنا ہے کہ جرمنی میں ٹیکس سسٹم پہلے ہی مستحکم ہے جبکہ عالمی سطح پر موازنہ کیا جائے تو دیگر ممالک کے مقابلے میں جرمن کارپوریٹ ٹیکس پہلے ہی بہت زیادہ ہے اور اگر اسے مزید بڑھایا گیا تو مستقبل میں اس کے ملکی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

قانونی دشواری کیا ہے؟

جرمنی میں ٹیکس کا نظام پیچیدہ قرار دیا جاتا ہے۔ پساؤ یونیورسٹی سے وابستہ ٹیکس قوانین کے ماہر ٹیل میکمان کا کہنا ہے کہ جرمن آئین کے تحت نئے ٹیکس لگانے کی حد بہت کم ہے۔

میکمان نے روئٹرز کو بتایا کہ منافع دراصل انکم اور کارپوریٹ ٹیکس کی مد میں ہی آتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کمپنیوں کے ساتھ غیر مساوی سلوک دراصل مسابقت کے قوانین کے خلاف ہے، اس لیے یہ غیر قانونی قرار پائے گا۔

تاہم ٹیکس جسٹس نیٹ ورک کے مطابق جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں میں تیار کی گئی دو رپورٹوں میں اس بات پر وکالت  کی گئی ہے کہ جرمنی میں ونڈفال ٹیکس کا منصوبہ قانونی طور پر ملک ٹیکس قوانین سے متصادم نہیں ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید