جرمنی: ایٹمی توانائی سے کنارہ کشی لیکن زرِ تلافی کون دے گا؟
4 جولائی 2016جاپان میں سُونامی اور زلزلے سے فوکوشیما کے ایٹمی بجلی گھر کی تباہی کی تصاویر منظرِ عام پر آنے کے دو ہی روز بعد چَودہ مارچ کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا تھا، ’ہم اب ایسے نہیں ظاہر کر سکتے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو‘۔ چنانچہ جرمن صوبوں کے ایٹمی توانائی کے نگران محکموں نے ایک ایٹمی موریٹوریم کے ذریعے یہ احکامات جاری کر دیے کہ جرمنی کے سات سب سے پرانے بجلی گھروں کے علاوہ بار بار تکنیکی خرابیوں کا شکار ہونے والے ایک ری ایکٹر کو بھی تین ماہ کے لیے بند کر دیا جائے۔
یہ فیصلہ عجلت میں کیا گیا تھا چنانچہ اکتوبر 2010ء میں میرکل حکومت نے ایٹمی توانائی ترک کرنے سے متعلق سابقہ حکومت کے 2002ء کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ جون 2011ء میں میرکل حکومت نے ایک بار پھر سیاسی قلابازی لگاتے ہوئےآٹھ ایٹمی بجلی گھر بند کرنے اور باقی نو کو 2022ء تک مرحلہ وار بند کرنے سے متعلق فیصلہ دیا۔
اب پانچ سال بعد رفتہ رفتہ یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ یہ فیصلہ کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے۔ بڑے ایٹمی بجلی گھروں نے عدالتوں سے رجوع کر لیا ہے اور وہ تقریباً بیس مختلف مقدمات میں بیس ارب یورو کے لگ بھگ زر تلافی طلب کر رہے ہیں۔
بون کی ایک عدالت ایسی ایک درخواست یہ کہہ کر رَد کر چکی ہے کہ یہ درخواست حکومتی فیصلے کے فوراً بعد دائر نہیں کی گئی تھی۔
کئی دیگر اداروں مثلاً Eon اور RWE نے البتہ بر وقت عدالت سے رجوع کر لیا تھا۔ Eon کا مطالبہ ہے کہ اُسے زر تلافی کے طور پر آٹھ ارب یورو ادا کیے جائیں، RWE چھ ارب مانگ رہا ہے جبکہ Vattenfall نامی ادارہ 4.7 ارب یورو طلب کر رہا ہے۔
حکومت کے قائم کردہ ایک ایٹمی کمیشن کا کام یہ طے کرنا تھا کہ ایٹمی فُضلے کو ٹھکانے لگانے اور ایٹمی بجلی گھروں کو منہدم کرنے پر اٹھنے والے اخراجات کو منتظم ادارے اور حکومت آپس میں کس طرح بانٹیں گے۔ ابھی اپریل میں اس کمیشن نے فیصلہ سنایا کہ بجلی گھروں کی بندش اور انہدام کا کام منتظم ادارے خود ہی انجام دیں گے۔ بدلے میں ایٹمی فُضلے کو ٹھکانے لگانے کا کام حکومت اپنے ذمے لے لے گی حالانکہ اس پر حکومت کو دگنی رقم بھی خرچ کرنا پڑ سکتی ہے، جو بالآخر ٹیکس دہندگان کی جیب سے جائے گی۔ آیا یہ تجویز قانون بھی بنتی ہے اور سال کے آخر تک یہ قانون نافذ العمل بھی ہو سکتا ہے، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔