جرمنی: بارہ ہزار سے زائد افغان مہاجرین کی واپسی
17 نومبر 2016ایک جرمن اخبار نوئے اوسنابرُؤکر سائٹنگ نے حکومتی دستاویز کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگلے کچھ عرصے میں بارہ ہزار سے زائد افغان مہاجرین کو اُن کے ملک روانہ کر دیا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق ان پناہ کے متلاشی افغانوں کے انٹرویوز کے بعد متعلقہ حکام نے اُن کی بیان کی گئی پناہ گزینی کی وجوہات کو مسترد کر دیا ہے۔
حکام نے یہ بھی بتایا ہے کہ ان ہزاروں افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کا بہت بڑا حصہ مسلح افراتفری سے متاثر نہیں ہے۔ جرمن حکومت نے ان مہاجرین کی واپسی کا بیان پارلیمنٹ میں دیا ہے۔ جرمنی کی بائیں بازو کی بڑی اپوزیشن پارٹی ’ڈی لِنکے‘ نے مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے جو تفصیلات طلب کی تھی، اُس کے جواب میں برلن حکومت نے پارلیمنٹ میں بارہ ہزار سے زائد افغان مہاجرین کی واپسی کا بتایا۔
اخبار نوئے اوسنابرُؤکر سائٹنگ کے مطابق پارلیمنٹ میں دیے گئے جواب میں بتایا گیا کہ اِس وقت جرمنی میں دو لاکھ سینتالیس ہزار رجسٹرڈ افغان مہاجرین ہیں اور اُن کا تقریباً پانچ فیصد بہت جلد واپس روانہ کیا جا رہا ہے کیونکہ زیادہ تر افغان علاقے مسلح انتشار کی لپیٹ میں نہیں ہیں۔ اس تناسب سے واپس بھیجے جانے والے افغانوں کی تعداد بارہ ہزار 539 بنتی ہے۔
حکومتی بیان میں اس توقع کا بھی اظہار کیا گیا کہ کئی افغان مہاجرین رضاکارانہ طور پر بھی واپسی کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں۔ اس بیان میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ ایسے افغان مہاجرین بھی ہیں جن کو جبری طور پر واپس بھیجا جا سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق افغان مہاجرین کی جبری واپسی کسی حد تک متنازعہ عمل ہو سکتی ہے کیوں کہ کئی افغان علاقے تواتر سے عسکریت پسند طالبان کے حملوں کی زد میں دکھائی دیتے ہیں، جن میں قابل ذکر قندوز، لشکر گاہ اور مزار شریف جیسے شہر ہیں۔ مزار شریف میں جرمن قونصل خانے پر کیے گئے حملے میں چھ افراد ہلاک اور 125 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
رواں برس ابھی تک ستائیس افغانوں کو اُن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہونے کے بعد ان کے آبائی وطن واپس روانہ کیا جا چکا ہے۔ گزشتہ برس ایسے افغان مہاجرین کی تعداد محض نو تھا۔