1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
جرائمیورپ

جرمنی: بغاوت کے مقدمے میں ملزمان کے خلاف سماعت کا آغاز

29 اپریل 2024

جرمن پولیس نے سات دسمبر 2022ء کو ملک گیر چھاپوں کے ایک سلسلے میں ریاست کے خلاف مشتبہ سازش کا پردہ فاش کرتے ہوئے رائش بُرگر نامی انتہائی دائیں بازو کی تنظیم سے تعلق کے شبے میں تقریباً 25 افراد کو گرفتار کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/4fIqC
Deutschland Kabinettsausschuss beschließt Maßnahmen zur Bekämpfung von Rechtsextremismus und Rassismus
رائش برگر کے ارکان مبینہ طور پر موجودہ جرمن حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں ملوٹ تھےتصویر: Christophe Gateau/dpa/picture alliance

جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی ایک تنظیم پر بغاوت کی سازش کے الزامات کے تحت قائم کیے گئے تین میں سے پہلے مقدمے کی سماعت  کا آغاز آج  پیر 29 اپریل کو ہو گیا ہے۔ اس مقدمے میں شریک ملزمان پر سنگین غداری کی سازش تیار کرنے اور ایک دہشت گرد تنظیم سے تعلق رکھنے کا الزام ہے۔

یہ تمام مشتبہ ملزمان نام نہاد ''رائش بُرگر‘‘ تحریک کا حصہ اور مبینہ طور پر موجودہ جرمن حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کر رہے تھے۔ ’’رائش ُبرگر‘‘یا ''سلطنت کے شہری‘‘ نامی اس انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد دوسری عالمی جنگ کے بعد کی جرمن ریاست کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ جرمن ریاست دوسری عالمی جنگ جیتنے والی اتحادی طاقتوں کے ذریعے وجود میں لائی اور کنٹرول کی گئی۔

Deutschland Razzia gegen Reichsbürger-Szene in Frankfurt
پرنس روئس سمیت اس سازش کے سرغنہ سمجھے جانے والے دس ملزمان کے خلاف ایک انتہائی اعلیٰ سطحی مقدمہ  اکیس مئی سے شروع ہو رہا ہے۔تصویر: Boris Roessler/dpa/picture alliance

جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر نے آج پیر کی صبح جرمن براڈکاسٹر زیڈ ڈی ایف  کو بتایا، ''یہ ہماری آئینی ریاست کی طاقت ہے کہ 'رائش سٹیزنز‘ کے اب تک کے سب سے بڑے دہشت گرد نیٹ ورک پر مقدمہ چل رہا ہے اور ریاست کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے والے عسکریت پسندوں کو اپنے منصوبوں کے لیے جواب دینا ہو گا۔‘‘

جرمن پولیس نے سات دسمبر 2022ء کو ملک گیر چھاپوں کے ایک سلسلے میں ریاست کے خلاف مشتبہ سازش کا پردہ فاش کرتے ہوئے   تقریباً 25 افراد کو گرفتار کیا تھا۔ اس دوران  380 سے زائد آتشیں ہتھیار اور تقریباﹰ ڈیڑھ لاکھ گولیاں برآمد کی گئیں۔ اس گروپ کی مبینہ عسکری شاخ سے تعلق رکھنے والے ملزمان کو اشٹٹ گارٹ میں عدالت کا سامنا ہے۔ نو ملزمان کی نمائندگی 22 وکلاء کر رہے ہیں، جب کہ اس مقدمے میں 270 پولیس افسران سمیت 300 سے زائد گواہوں کو نامزد کیا گیا ہے۔

21 مئی کو فرینکفرٹ میں اس سازش کے سرغنہ سمجھے جانے والے دس ملزمان کے خلاف ایک انتہائی اعلیٰ سطحی مقدمہ  شروع ہو رہا ہے۔  اس کے ساتھ ساتھ رائش برگر کے مبینہ مزید آٹھ مشتبہ ارکان کو 18 جون سے میونخ میں مقدمے کی سماعت کا سامنا ہوگا۔

بغاوت کے الزامات کا سامنا کرنے والے رائش ُبرگر گروپ کے مبینہ سرغنہ 72 سالہ ہینرش ہشتم پرنس روئس  کا تعلق فرینکفرٹ میں اشرافیہ کے ایک خاندان سے ہے اور وہ پیشے کے لحاظ سے ایک  اسٹیٹ ایجنٹ ہیں۔ انہیں مبینہ طور پر ان کے حامیوں نے ایک جرمن ریاست کے عارضی سربراہ کے کردار کے لیے مختص کیا تھا۔

ان کے گروپ پر جرمن پارلیمنٹ پر دھاوا بولنے اور چانسلر اولاف شولس، وزیر خارجہ انالینا بیئربوک اور قدامت پسند اپوزیشن لیڈر فریڈرک مرز سمیت ممتاز سیاستدانوں کو حراست میں لینے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام ہے۔

Birgit Malsack Winkemann AfD
شریک ملزمان میں برگِٹ مالزاک ونکیمان بھی شامل ہیں، جو ایک جج اور وفاقی پارلیمان میں انتہائی دائیں بازو کی آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لانڈ (اے ایف ڈی) پارٹی کی وفاقی جرمن پارلیمان یا بنڈسٹاگ کی رکن ہیںتصویر: Metodi Popow/IMAGO

فرینکفرٹ میں چلائے جانے والے مقدمے کے شریک ملزمان میں برگِٹ مالزاک ونکیمان بھی شامل ہیں، جو ایک جج اور وفاقی پارلیمان میں انتہائی دائیں بازو کی آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لانڈ (اے ایف ڈی) پارٹی کی وفاقی جرمن پارلیمان یا بنڈسٹاگ کی رکن  ہیں۔ وہ مبینہ طور پر بغاوت کے بعد وزیر انصاف بننا چاہتی تھیں۔

دسمبر 2022 میں پرنس روئس سمیت اس گروہ کی  ہائی پروفائل گرفتاریوں کے بعد پولیس نے رائش بُرگر کے خلاف  مزید چھاپے مارے  اور گرفتاریاں  عمل میں لائی گئیں۔

خونی بغاوت

پرنس روئس کے حامیوں نے بغاوت کے لیے مبینہ طور پر جرمن فوج کے ہیلی کاپٹروں کے استعمال کا منصوبہ بنا رکھا تھا، جو ان کے مقصد کی حمایت کرنے والے فوجیوں کے ذریعے اڑائے جانے تھے۔ یہاں تک کہ ان ملزمان پر جرمن مسلح افواج کو چھوٹے ہتھیاروں کے فراہم کنندہ اسلحہ ساز کاروبار ی ادارے ہیکلر اینڈ کوچ پر بزور طاقت قبضے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام بھی ہے۔

استغاثہ کا الزام ہے کہ روئس اور ان کے حامیوں نے سینکڑوں بچوں اور نوعمروں کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی بھی کر رکھی تھی۔

وفاقی جرمن دفتر استغاثہ کا کہنا ہے کہ یہ گروپ ایک پرتشدد بغاوت کی منصوبہ بندی کر رہا تھا اور اس کا مقصد دوسری عالمی جنگ کے اتحادیوں بالخصوص روس کے ساتھ ایک نئے معاہدے پر بات چیت کرنا تھا۔ اس گروپ نے بغاوت کی مبینہ  تیاریوں کے ایک حصے کے طور پر جرمن پارلیمان بنڈس ٹاگ پر حملے کے لیے آتشیں اسلحہ کی تربیت اور جاسوسی مشن انجام دیے۔

'رائش بُرگر‘ کے ارکان کی تعداد تقریباﹰ بیس ہزار

جرمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کا اندازہ ہے کہ ''رائش بُرگر‘‘ نامی تحریک میں جرمنی میں تقریباً 20,000 افراد شامل ہیں، جن میں سے تقریباً 2,300 کو ''تشدد کے استعمال کے لیے تیار‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ جو چیز ان سب میں مشترک ہے وہ ان کے سامیت دشمن  عقائد ہیں۔ وہ جمہوریت کو مسترد کرتے ہیں اور بادشاہت کے حامی رجحانات رکھتے ہیں۔

صحافی ٹوبیاس گِینسبرگ نے  ''رائش بُرگر‘‘ کے پس منظر کے حوالے سے خفیہ تحقیق کرنے میں آٹھ ماہ گزارے ہیں۔ گزشتہ مارچ میں جب ڈی ڈبلیو کی طرف سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے خیال میں یہ تحریک جرمن ریاست کے لیے ایک حقیقی خطرہ ہے، تو گینسبرگ کا کہنا تھا، ''اس کا جواب دینا اتنا آسان نہیں جتنا لگتا ہے۔ رائش بُرگر  کوئی مربوط گروپ یا انتہا پسندی کی کوئی آزاد شکل نہیں ہے۔ یہ ایک سازشی تھیوری ہے، جو جرمن معاشرے اور قومی سوشلزم میں گہرائی سے جڑی ہوئی ہے۔‘‘ لیکن انہوں نے کہا کہ یہ گروپ دائیں بازو کے تمام ارکان کے تصورات کا اشتراک پیش کرتا ہے۔ اور وہ تصور ''غیر ملکیوں کے بغیر ایک مساوی معاشرے کا خیال ہے۔‘‘

پرنس روئس اور ان کے ساتھیوں کی بغاوت کی مبینہ کوشش سے منسلک تینوں مقدمات کے فیصلے آئندہ برس یعنی 2025ء سے قبل متوقع نہیں ہیں۔

جینز تھراؤ ( ش ر/اب ا)

یہ مضمون پہلی بار جرمن زبان میں تحریر کیا گیا تھا۔

جرمن حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے والے کون؟