جرمنی: شمسی توانائی کا ’بوم‘
2 جنوری 2013سولر انرجی کی جرمن ایسوسی ایشن کے مطابق اس وقت شمسی توانائی کے ایک اعشاریہ تین ملین یونٹس کام کر رہے ہیں۔ ان یونٹس کی مدد سے آٹھ ملین گھروں کی توانائی کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ سال 2011ء کے مقابلے میں سولر انرجی کے استعمال میں 45 فیصد اضافہ ہوا ہے۔جرمنی میں یکم جنوری سے قابل تجدید ذرائع سے حاصل کی جانے والی توانائی پر عائد ٹیکسوں میں اضافہ ہوا ہے۔
اس مد میں3.6 یورو کلو واٹ فی گھنٹہ ادا کرنے ہوتے تھے لیکن اب نئے ضوابط کے مطابق 5.3 یورو کلوواٹ فی گھنٹہ ادا کرنے ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر چار افراد پر مشتمل ایک خاندان سال میں پانچ ہزار کلو واٹ بجلی استعمال کرتا ہے تو اسے بجلی اور بنیادی دیکھ بھال کے لیے 1450 یورو ادا کرنے پڑیں گے، جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 160 یورو زیادہ ہیں۔ یہ تقریباً 12 فیصد اضافہ بنتا ہے۔
جرمنی میں توانائی کے متبادل ذرائع کے استعمال کو فروغ دینے کی زبردست کوششیں جاری ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چند برسوں کے دوران ہی توانائی کے قابل تجدید ذرائع کا شعبہ جرمنی کے اندر ایک بڑے اقتصادی عنصرکی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل توانائی سے متعلق اپنی پالیسی بیان کر چکی ہیں۔ اس کے مطابق ملک کے زیادہ تر جوہری بجلی گھر2021ء تک بند کر دیے جائیں گے۔ اس دوران بجلی کی قلت کی صورت میں صرف تین جوہری پلانٹس کام کرتے رہیں گے۔ تاہم 2022ء میں یہ ایٹمی بجلی گھر بھی بند کر دیے جائیں گے۔
جرمنی میں سولر انرجی کی وفاقی ایسوسی ایشن BSW کے سربراہ کارسٹن کُونِج کے بقول گزشتہ تین برسوں کے دوران سولر انرجی کے استعمال میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، ’’ جرمنی نے سولر انرجی کے استعمال کی جو فصل بوئی تھی وہ اب تیار ہو چکی ہے اور اسے اب کاٹنے کا وقت آ گیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ابتداء میں سولر انرجی کے یونٹس کی تنصیب پر کافی اخراجات آتے تھے تاہم اب یہ کم ہو کر نصف رہ گئے ہیں۔
BSW کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں صرف پانچ فیصد ضروریات شمسی توانائی سے پوری کی جا رہی ہیں۔ اس ایسوسی ایشن کی کوشش ہے کہ اس شرح کو 2020ء تک دس فیصد تک پہنچایا جائے جبکہ 2030ء تک توانائی کی بیس فیصد ضروریات سولر انرجی سے پوری کرنے کا منصوبہ ہے۔