جرمنی فوجی بغاوت کے منصوبہ سازوں کی حمایت کر رہا ہے، ترکی
19 مارچ 2017خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ترجمان ابراہیم کالین کی جانب سے جرمنی پر گولن کی تنظیم کی حمایت کے اس الزام کے بعد برلن اور انقرہ حکومتوں کے مابین سفارتی تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
جرمنی کے موقر جریدے ’ڈیئر اشپیگل‘ نے ہفتے کے روز ملکی خفیہ ادارے بی این ڈی کے سربراہ برونو کوہل کا ایک انٹرویو شائع کیا تھا۔ انٹرویو میں کوہل کا کہنا تھا کہ انقرہ حکومت جرمنی کو اس بات پر قائل کرنے میں ناکام رہی ہے کہ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے ذمہ دار امریکا میں مقیم ترک مذہبی مبلغ فتح االلہ گولن تھے۔
برونو کوہل کا کہنا تھا، ’’ترکی نے ہمیں ہر سطح پر قائل کرنے کو کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔‘‘ ترک صدر ایردوآن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ جرمن خفیہ ادارے کے سربراہ کے بیانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ جرمنی گولن نیٹ ورک کا حامی ہے۔ گولن کی تنظیم کو ترک حکومت ’گولینین دہشت گرد تنظیم‘ یا ’فیٹو‘ کا نام دیتی ہے۔
فتح اللہ گولن ایردوآن کے سابق ساتھی ہیں جو 1999ء سے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر کے امریکا میں مقیم ہیں۔ ایردوآن حکومت گزشتہ برس جولائی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کا ذمہ دار گولن اور ان کی تنظیم کو قرار دیتی ہے۔
سی این این ترک سے کی گئی اپنی ایک گفتگو میں ایردوآن کے ترجمان نے بی این ڈی کے سربراہ کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا، ’’ہم نے فیٹو کے بارے میں جو معلومات انہیں فراہم کی ہیں یہ انہیں غلط ثابت کرنے کی کوشش نہیں ہے بلکہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ (جرمنی) فیٹو کے حامی ہیں۔ وہ کیوں ان کی حمایت کر رہے ہیں؟ کیونکہ وہ جرمنی کے لیے ترکی کے خلاف استعمال کرنے کے لیے مفید آلہ کار ہیں۔‘‘
انقرہ اور برلن حکومتوں کے تعلقات گزشتہ کئی دنوں سے کشیدگی کا شکار ہیں۔ حالیہ کشیدگی کی ایک بڑی وجہ متعدد جرمن ریاستوں کی جانب سے ترک سیاست دانوں کو جرمنی میں جلسے اور ریلیوں سے خطاب کرنے کی اجازت نہ دینا ہے۔ ابراہیم کالین کا کہنا تھا کہ ترک آئینی ریفرنڈم سے قبل جرمنی میں مزید ریلیاں منعقد کی جا سکتی ہیں جن میں ترک وزراء ممکنہ طور پر شریک ہوں گے۔
ترکی میں آئینی ریفرنڈم سولہ اپریل کو منعقد کیا جا رہا ہے جس میں ملکی عوام ترکی میں صدارتی نظام لانے کی حمایت یا مخالفت میں ووٹ ڈالیں گے۔ ترکی میں حزب اختلاف کی جماعتوں اور ایردوآن کے ناقدین کا کہنا صدارتی نظام کے نفاذ کی صورت میں رجب طیب ایردوآن کی ترکی پر گرفت مزید مضبوط ہو جائے گی۔