1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: موسم سرما میں کووڈ انیس کی واپسی

18 دسمبر 2023

جرمنی کے رابرٹ کوچ انسٹی ٹیوٹ برائے صحت عامہ کے مطابق ملک کے 10 فیصد سے زیادہ لوگ سانسں کی نالی کے انفکیشن کا شکار ہیں۔ طبی ماہرین نے لوگوں کو ویکیسن کے بوسٹر لگووانے کے ساتھ ساتھ ماسک پہننے کی تجویز دی ہے۔

https://p.dw.com/p/4aIlj
Symbolbild I Krankes Kind I Husten
تصویر: lev dolgachov/Zoonar/picture alliance

کووڈ انیس ایک خوفناک مرض کے طور پر اب اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔ جرمنی میں زیادہ تر لوگ اس مرض سے بچاؤ کی ویکسین لگوا چکے ہیں یا بصورت دیگر بنیادی استثنیٰ حاصل کر چکے ہیں۔ پھر بھی ریٹ شٹڈ جیسے جنرل پریکٹیشنرز اب بھی کووڈ انیس کے مرض سے نمٹنے میں مصروف ہیں۔ مغربی جرمنی کے شہر ڈورٹمنڈ کے اس ڈاکٹر نے کہا، "یہ ایک بار پھر عام انفیکشن کا موسم ہے۔ شدید زکام اور کھانسی کی شکایات کافی زیادہ ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''جب ہم پیر کی صبح (کلینک) کا دروازہ کھولتے ہیں تو وہاں 70 لوگ بغیراپائنٹمنٹ کے موجود ہوتے ہیں، ان میں مرد، عورتیں، جوان اور بوڑھے شامل ہوتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر شٹڈ کےاندازے کے مطابق ان  میں سے 80 فیصد مریض کسی نہ کسی قسم کے وائرل انفیکشن کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں نصف تعداد کوویڈ انیس سے متاثرہ ہوتی ہے۔

Deutschland, Freising | Spritze und Vaccin Biontech, Post Vac
طبی ماہرین نے کووڈ کی وجہ سے خطرے کا شکار ہونے والے گروہوں اور عمر رسیدہ افراد کو حفاظتی ویکیسن کے بوسٹر شاٹس لگوانے کی تجویز دی ہےتصویر: Christof Stache/AFP

صرف چند سنگین کیسز

ان میں سے زیادہ تر مریض ماسک کا استعمال نہیں کرتے۔ یہ ماسک ڈاکٹرشٹڈ انہیں صرف 50 سینٹ میں پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے انفیکشن کے مریضوں کے لیےصرف ایک گھنٹہ مختص کر رکھا ہے اور مریض ویڈیو لنک کے ذریعے بھی ان سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ پی سی آر ٹیسٹ ان لوگوں کے لیے مخصوص ہیں جو خاص طور پر خراب حالت میں ہیں۔

 ڈاکٹرشٹڈ کے مطابق، ''ہمیں اب سنگین کیسز نظر نہیں آتے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ صرف ایک 94 سالہ مریض کو کووڈ انیس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ بصورت دیگر اب اس مرض کی علامات سردی کی باقاعدہ قسم کی عکاسی کرتی ہیں جو لوگوں کو گھر میں بستر پر صحت یاب ہونے تک کام سے دور رکھتی ہیں۔ ان کے مطابق اب بھی کووڈ کا مرض  دو ہفتوں تک رہ سکتا ہے۔

اگرچہ سانس کی نالی کی  بیماری زیادہ مہلک نہیں ہوسکتی لیکن یہ بڑے پیمانے پر رکاوٹوں کا باعث بن رہی ہے. جرمنی کے رابرٹ کوچ انسٹی ٹیوٹ برائے صحت عامہ کے مطابق ملک کے 10 فیصد سے زیادہ لوگ بیمار ہیں اور دفاتر اور عوامی خدمات انجام  دینے والے ادارے کام جاری رکھنے کے لیےجدوجہد کر رہے ہیں۔ جرمن وزیر صحت کارل لاؤٹرباخ نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ  حفاظتی ٹیکے لگوائیں۔

فرینکفرٹ میں مقیم ماہر وائرولوجسٹ مارٹن سٹرمر نے کہا کہ پی سی آر ٹیسٹنگ کی دیگر شکلیں مغربی جرمنی کی ریاست رائن لینڈ-پلاٹینیٹ میں سات دن میں تقریباً 3,900 کیسز کی نشاندہی کرتی ہیں۔ یہ ایک ہفتہ پہلے کے اعدادوشمار کے مقابلے میں 2,600 زیادہ کیسز ظاہر کرتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ، "ہم ایک ایسے مرحلے میں ہیں، جہاں کورونا وائرس کے اعداد و شمار بڑے پیمانے پر بڑھ رہے ہیں۔‘‘

EU-Gipfel Dezember 2023: Diskussion über aktuelle Herausforderungen und politische Agenda |  Olaf Scholz
جرمن چانسلر اولاف شولس بھی کووڈ انیس کا شکار ہو گئے ہیںتصویر: European Union

پیرولا کی مختلف اقسام عروج پر

مارٹن سٹرمر کے مطابق کورونا وائرس کے اعداد و شمار فلو اور سانس کی بیماریوں کے معمول کے معاملات کے علاوہ ہیں۔ اس کے باوجود  ان کی وجہ سے اسپتالوں اور آئی سی یو وارڈز پر زیادہ بوجھ نہیں پڑا۔ شرح اموات بھی مستحکم رہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کورونا وائرس کی بہت سی مختلف قسموں میں سے پیرولا کا جانشینJN.1 سب ویریئنٹ اب تقریباً ایک تہائی کیسز کے لیے ذمہ دار ہے۔

سٹرمر کے مطابق اگرچہ اس ویرئینٹ سے عام آبادی کے لیے خطرہ کم ہے تاہم انہوں نے خطرے کے شکار گروہوں بشمول 60 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں  کوکووڈ ویکسین کے بوسٹر شاٹس لینے کی تجویز دی ہے۔ یہ کووڈ انیس کے طویل مدتی اثرات کے خلاف دفاع کے خلاف اقدامت کا ایک حصہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کووڈ کے خلاف دفاع میں ماسک بھی ایک اچھا آپشن ہیں حالانکہ ان کی طرف واپس لوٹنے کے لیے عوامی سطح پر بہت کم  خواہش پائی جاتی ہے۔ سٹرمر نے کہا، "ویکسین کےٹیکے لگوانے کی خواہش بھی یقینی طور پر کم سطح پر ہے۔میرے خیال میں یہ وہ تمام عوامل ہیں جن کو ہم مثبت اور بامعنی انداز کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے، موجودہ صورتحال میں نمایاں طور پر بہتری لاسکتے ہیں۔‘‘

اولیور پائپر (ش ر⁄ ع ب)

بچے کورونا وبا کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟