جرمنی، مہاجرین میں خود کشی کی شرح بڑھتی ہوئی
19 مئی 2018جرمن صوبے ہیسے میں موجود مہاجرین میں خود کشی کرنے کے رحجان میں اضافے پر حکومتی حلقوں میں تشویش پائی جا رہی ہے۔ ہیسے کی پارلیمان میں لیفٹ پارٹی کے کچھ سیاستدانوں نے کہا ہے کہ مہاجرین میں خودکشی کی شرح میں اضافے کی وجہ شیلٹرہاؤسز کی ابتر صورتحال اورڈی پورٹ کیے جانے کا خوف ہو سکتا ہے۔ ادھر صوبائی حکومت نے کہا ہے کہ مہاجرین کو نفسیاتی مدد پہنچانے کے لیے خصوصی انتظامات کیے ہیں۔
جرمنی میں ایک ہی افسر نے دو ہزار مہاجرین کو پناہ کیسے دی؟
جرمنی ميں مہاجرین کی جعلی شادیاں کرانے والا گروہ گرفتار
جرمنی میں جرائم کی شرح میں کمی مگر خوف میں اضافہ
فرینکفرٹ کا ہوائی اڈہ جرمن کا ایک مصروف ترین ایئر پورٹ ہے۔ ایسے مہاجرین جن کو ملک بدر کیا جانا ہوتا ہے، ان میں سے زیادہ تر کو اسی ایئر پورٹ سے ان کے وطن روانہ کیا جاتا ہے۔ اس بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ہی ایک خصوصی ٹرانزٹ زون قائم کیا گیا ہے، جہاں ملک بدری کا انتظار کرنے والے مہاجرین کو عارضی طور پر رہائش مہیا کی جاتی ہے۔ مہاجرین میں خود کشیوں یا خود کو جسمانی نقصان پہنچانے کے زیادہ تر واقعات اسی شیلٹر ہاؤس میں ریکارڈ کیے گئے ہیں۔
گزشتہ برس جرمن صوبے ہیسے میں کم ازکم 70 مہاجرین نے خود کو جسمانی نقصان پہنچایا یا خودکشی کی کوشش کی۔ ان میں سے اٹھارہ مہاجرین فرینکفرٹ ایئرپورٹ کے اسی ٹرانزٹ زون میں مقیم تھے۔ بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس مجموعی طور پر چار مہاجرین نے خودکشی کی۔ صوبائی حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق ہیسے میں سن دو ہزار چودہ اور سولہ میں کسی مہاجر نے خود کشی نہیں کی تھی۔ تاہم سن دو ہزار پندرہ میں چار مہاجرین نے اپنی جان لے لی تھی۔
ان اعداد و شمار کے مطابق سن دو ہزار سولہ میں پناہ کے متلاشی اٹھارہ افراد نے خودکشی کی کوشش کی یا خود کو جسمانی نقصان پہنچایا۔ اس صورتحال پر ہیسے میں لیفٹ پارٹی کی خاتون سیاستدان گائبریل فاؤل ہابر نے کہا ہے کہ مہاجرین میں خود کشیوں کی بڑھتی ہوئی شرح پریشان کن ہے اوراس حوالے سے مکمل چھان بین کرانا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ’’اگرچہ خود کشی کی وجہ انتہائی نجی قسم کی ہو سکتی ہے لیکن ہمیں دیکھنا چاہیے کہ جو مہاجرین یہ کوشش کرتے ہیں، وہ کن حالات میں زندگی بسر کررہے ہیں۔‘‘
گائبریل فاؤل ہابر کے بقول مہاجرین کے ان شیلٹرہاؤسز کے حالات بہترنہیں ہیں اورانہیں متعدد اقسام کے مسائل کا سامنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح ان افراد کو جرمنی بدرکا خوف بھی لاحق ہے کیونکہ ایسی کوئی ضمانت نہیں کہ ان کی پناہ کی درخواست منظورکر لی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ بلقان کے ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کی پناہ کی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں تو اس میں کوئی اچنبھا نہیں لیکن پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک کے افراد کی ملک بدری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
جرمن حکومت کے پاس ایسے کوئی اعداد و شمار نہیں کہ اب تک کتنے مہاجرین خود کشی کر چکے ہیں۔ وفاقی ادارہ برائے شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق البتہ سن دو ہزار پندرہ میں دس ہزارکے قریب افراد نے خود کشی کی تھی۔ حالیہ برسوں کے دوران جرمنی کے دیگر صوبوں میں بھی خود کشی کے واقعات میں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے۔ سن دو ہزارپندرہ میں باویریا میں 162 مہاجرین نے خود کشی کی کوشش کی تھی۔ سن دو ہزار چودہ کے مقابلے میں یہ شرح تین گنا زیادہ تھی۔ اسی طرح جرمن صوبے لوئر سیکسنی میں سن دو ہزار سولہ کے دوران خود کشی کی کوشش کے مجموعی واقعات سن دو ہزارپندرہ کے مقابلے میں دو گنا سے زیادہ ہو گئے تھے۔
ع ب / ا ا / خبررساں ادارے