جرمنی میں آثار قدیمہ کی تیرہ نایاب دریافتیں
برلن میں آثار قدیمہ کی ایک نمائش میں یورپ میں ارتقاء کے عمل میں اہم کردار ادا کرنے والے کئی نایاب قدیمی نمونے رکھے گئے ہیں۔ ان میں سے تیرہ ایسے آثار قدیمہ شرکاء کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں، جو جرمنی ہی میں دریافت ہوئے۔
’تصوراتی‘ آسمان
یہ سکہ آثار قدیمہ کی تاریخ میں ایک اہم دریافت قرار دیا جاتا ہے۔ اس سکے پر آسمان کی ایک تصویر کندہ ہے۔ کائناتی مظہر کی یہ تصوراتی نقش نگاری آسمانی رازوں کی قدیم ترین تصویر کشی ہے۔ دھات کا یہ سکہ صوبے سیکسنی میں آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران 1999 میں ملا تھا۔ اندازہ ہے کہ نیبرا نامی یہ سکہ کم از کم 36 سو سال پرانا ہے۔ اس پرنقش کائناتی مظاہر دراصل اُس وقت کے مذہبی عقائد کی دلالت کرتے ہیں۔
قدیم ترین انسانی صورت گری
یہ قدیمی نمونہ سن 2008 میں جنوب مغربی جرمنی میں ایک غار سے دریافت کیا گیا۔ Venus of Hohle Fels نامی یہ فن پارہ انسانی صورت گری کا قدیم ترین شاہکار قرار دیا جاتا ہے۔ ہاتھی دانت کی بنی قریب چھ سینٹی میٹر کی اس انسانی شبیہ کے بارے میں یقین ہے کہ یہ تب تعویز کے طور پر استعمال کی جاتی تھی۔ یہ 40 ہزار سال پرانی ہے۔ یوں قبل از تاریخ کے عہد کا یہ نمونہ قدیم ترین معلوم انسانی صورت گری قرار دیا جاتا ہے۔
دیو قامت کلاہ
برلن میں جاری Restless Times: Archaeology in Germany نامی اس نمائش میں یہ طلائی کلاہ بھی رکھا گیا ہے۔ برنجی دور میں تخلیق کی گئی سونے کی چار ٹوپیوں میں سے تین برلن کی اس نمائش میں موجود ہیں۔ انہیں ایک ہزار سال قبل کے دور کے دیوتاؤں کی علامتوں اور خصوصیات سے منسلک کیا جاتا ہے، جو تب وسطی یورپ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے انتہائی مقدس تھے۔
کولون کا خزانہ
جرمنی سے دریافت ہونے والے ہزاروں قدیمی نوادرات پہلی صدی عیسوی کے ہیں۔ شہر کولون سے ملنے والے یہ دیے بھی برنجی دور کے ہیں۔ تاریخی حوالہ جات کے مطابق رومن سلطنت نے پہلی صدی عیسوی میں کولون میں ایک نئی آبادی بسائی تھی، جو تجارتی حوالے سے انتہائی اہم ثابت ہوئی۔ سن دو ہزار سات میں اسی شہر سے رومن دور کی ایک کشتی بھی دریافت ہوئی تھی، جس کی عمر انیس سو سال بنتی ہے۔
کیلٹک شہزادی کا راز
برلن کے Gropius Bau Museum میں جاری نمائش میں یہ زیور بھی موجود ہے۔ جرمنی کے شمالی شہر ہیربرٹنگن میں سن دو ہزار دس کے اختتام پر کیلٹک شہزادی کا ایک مقبرہ دریافت ہوا تھا۔ ساتھ ہی وہاں کانسی اور سونے کے بنے زیوارات بھی ملے تھے، جن سے ان شواہد کو تقویت ملتی ہے کہ چھٹی صدی قبل از مسیح میں بھی یورپ اور دیگر خطوں کے مابین تجارت ہوتی تھی۔
قبروں میں پوشیدہ رومن آسائشیں
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر ہالٹرن میں رومن دور کا ایک مخصوص مقبرہ دریافت کیا گیا تھا۔ اس مقبرے سے ایک شخص کی جسمانی باقیات کے علاوہ ایک ایسا بیڈ بھی ملا تھا، جو اس دور میں مُردوں کے لیے مخصوص تھا۔ ماہرین کے مطابق ایسے بیڈ اٹلی سے جرمنی منتقل کیے گئے تاکہ کسی رومن شہری کی موت کے بعد بھی اس کے آرام کا خیال رکھا جا سکے۔ دریافت شدہ یہ بیڈ ایک ہزار نو سو سال پرانا ہے۔
پتھر کے زمانے کی ’سوئس چھری‘
یہ اوزار انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ استعمال کیا گیا۔ یہ چھری یا کلہاڑی نما آلہ افریقہ میں دو ملین برس پہلے بھی پایا جاتا تھا۔ یورو ایشیائی ممالک میں البتہ اس اہم اوزار کی تاریخ چھ لاکھ برس سے زائد پرانی نہیں۔ یہ اوزار دراصل کاٹنے، مکس کرنے، مارنے یا پھینکنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ تصویر میں نظر آنے والا یہ پتھریلا اوزار 35 ہزار سال پرانا ہے۔
آگ کے طوفان پر سواری
یہ کانسی کا بنا چھوٹا سا مجسمہ ان گیارہ مجسموں میں سے ایک ہے، جو سن دو ہزار دس میں برلن میں تاریخی مقامات کی کھدائی کے دوران دریافت ہوئے تھے۔ نازی دور حکومت میں ان مجسوں کو میوزیم سے اٹھا لیا گیا تھا اور ایک ڈپو میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران ہونے والی بمباری کی حدت اور تباہی نے اس مجسمے کے رنگ و روغن پر بھی منفی اثرات مرتب کیے۔
یورپ کا قدیم ترین میدان جنگ
سن انیس سو نوے کے اواخر میں جرمن صوبے میکلن برگ بالائی پومیرانیا میں دریائے ٹولینزے کے کناروں پر جاری آثار قدیمہ کے لیے کھدائی کے دوران ہزاروں کی تعداد میں انسانی ہڈیاں اور مختلف قسم کے ہتھیار ملے تھے۔ اس مقام کو یورپ کا قدیم ترین جنگی میدان قرار دیا جاتا ہے، جہاں ہونے والے جنگی معرکے میں دیگر خطوں سے تعلق رکھنے والے جنگجو بھی شریک ہوئے تھے۔ اس میدان جنگ سے ملنے والی اشیا 33 سو برس پرانی ہیں۔
جادوئی لیبارٹری
سن دو ہزار بارہ میں جرمن شہر وِٹن برگ میں ایک مکمل لیبارٹری دریافت کی گئی تھی۔ اس قدیمی لیبارٹری میں وہ تمام اہم آلات ملے، جو تجربہ گاہوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ دریافت کے وقت اس لیبارٹری سے ملنے والے آلات اور برتن چھوٹے چھوٹے حصوں میں ٹوٹے ہوئے تھے۔ تاہم جب ماہرین نے انہیں جوڑا تو معلوم ہوا کہ یہ تو یورپ کی پہلی سائنسی تجربہ گاہ تھی۔ اندازہ ہے کہ یہ سن پندرہ سو بیس تا پندرہ سو چالیس کے دور کی ہے۔
قدیمی سامان آرائش
جنوبی جرمن علاقے میں واقع جھیل کونسٹانس کے قریب ہی یہ قدیمی نمونہ ملا۔ اندازہ ہے کہ یہ نئے سنگی دور کا ہے۔ مٹی کے پلاسٹر پر بنائی گئی یہ تخلیق اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ انسان چار ہزار سال قبل از مسیح بھی اپنے گھروں کو مختلف طریقوں سے سجاتے تھے اور ان کے آرائش کرتے تھے۔ اس نمونے میں دراصل اس زمانے کے خداؤں اور روایات کے مطابق گھر کو محفوظ بنانے والے طریقے استعمال کیے گئے ہیں۔
’یسوع مسیح قبر میں‘
قرون وسطیٰ میں رومن کیتھولک مقدس مقامات کی زیارتوں کے دوران ان نمونوں کو بطور بیج یا زیبائش کے لیے اپنے بدن پر سجاتے تھے۔ کچھ لوگ تو ان بیجز کی مقدس حیثیت کی وجہ سے انہیں قبروں تک بھی لے جاتے تھے۔ یہ قدیمی بیج ہاربرگ (موجودہ جرمن شہر ہیمبرگ کا ایک علاقہ) سے ملا تھا۔ اندازہ ہے کہ ایسی عبادتی علامتیں تیرہویں اور چودہویں صدی میں اس علاقے میں لائی گئی تھیں۔ اس بیج میں ’یسوع مسیح گدھے پر سوار‘ ہیں۔
نو سو گرام چاندی
سن دو ہزار پانچ میں ایک کوہ پیما نے اپر لوساتیا میں اپنی ایک مہم کے دوران اتفاق سے چاندی کے یہ سکے ڈھونڈ نکالے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر سکے گیارہویں صدی عیسوی کے ہیں۔ تجارتی عمل کے دوران یہ چاندی کے سکے دنیا کے مختلف علاقوں سے یورپ پہنچے، حتیٰ کہ کچھ سکے تو بغداد سے سفر کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے۔ باقاعدہ کرنسی کی ایجاد سے قبل یہی سکے خرید و فروخت کے لیے استعمال ہوتے تھے