180811 Anti-Terror-Gesetze
18 اگست 2011جرمنی میں انسداد دہشت گردی کے قوانین میں توسیع کے معاملے پر کابینہ میں بہت زیادہ شور نہیں ہوا۔ اس کے برعکس پارلیمان میں جب یہ توسیع منظوری کے لیے پیش کی جائے گی تو اپوزیشن کی جانب سے اعتراضات بلند کیے جانے اور زبردست بحث و مباحثے کی توقع ہے۔ اپوزیشن نے شہریوں کےکوائف محفوظ رکھنے کے موضوع پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ نجی زندگی میں مداخلت ہے۔
جرمن وزیر داخلہ ہنس پیٹر فریڈرش کہتے ہیں کہ صرف اسی صورت میں کسی بھی شخص کے کوائف کو محفوظ کیا جاتا ہے یا ان کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے، جب اس پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا شبہ ہو۔ اس وجہ سے عام شہریوں کو اس حوالے سے کسی خوف میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔
جرمنی میں انسداد دہشت گردی کا قانون ملکی خفیہ اداروں کو دہشت گردی کے شبے میں کسی بھی شخص سے متعلق تمام تر معلومات تک رسائی حاصل کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ اگر2011ء میں منظور کیے گئے دہشت گردی کی روک تھام کے ان قوانین میں وفاقی کابینہ توسیع کا فیصلہ نہ کرتی تو ان کی مدت رواں سال کے آخر میں ختم ہو جاتی۔
جرمن اپوزیشن جماعت دی لنکے کے ژینس کورٹے کہتے ہیں کہ شہریوں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ان کےکوائف کے ساتھ کیا کیاجاتا ہے؟ اس امر کا واضح ہونا بہت ضروری ہے۔ تاہم چند قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک مرتبہ پھر انسداد دہشت گردی کے قوانین کی اس نقطہء نظر سے جانچ پڑتال کی جائے کہ کہیں ان کی وجہ سے عام شہریوں کے نجی معاملات میں واقعی کوئی دخل اندازی تونہیں ہو رہی۔
جرمنی کی مخلوط حکومت میں شامل چند سیاستدانوں کو بھی ایسے کوائف محفوظ رکھنے کے قانون پر اعتراض ہے۔ تاہم انسداد دہشت گردی کے قوانین میں مزید چار سال کی توسیع کے فیصلے کی لازمی پارلیمانی منظوری ابھی باقی ہے۔ جرمن پولیس کی مرکزی تنظیم نے وفاقی کابینہ کے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں ہونے والی دہشت گردی کو تقریباً دس سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کا خطرہ پہلے ہی کی طرح برقرار ہے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت : مقبول ملک