جرمنی میں ای یو اور امریکا کی مجوزہ ٹریڈ ڈیل کے خلاف مظاہرے
17 ستمبر 2016کئی جرمن شہروں میں خراب موسم بھی مظاہرین کے راستے کی دیوار نہ بن سکا۔ ہفتے کے روز مظاہروں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کی ترجمان کیتھرین اوٹاوی کا کہنا تھا کہ برلن و میونخ میں بارش نے بھی مظاہرین کے مزاج پر کوئی اثر نہیں ڈالا اور وہ اِن ریلیوں میں بڑے پیمانے پر شریک ہوئے۔
ان مظاہروں کے سینکڑوں شرکا اوقیانوس کے آرپار اس مجوزہ ڈیل کی مخالفت میں بینرز اٹھائے ہوئے تھے۔ بعض بینرز پر جلی حروف میں لکھا تھا، ’ڈیموکریسی نا کہ ٹی ٹی آئی پی‘۔ کچھ پر درج تھا، ’دوسروں کے ساتھ بانٹیے، انہیں تقسیم مت کرو‘۔
مظاہروں کی پلاننگ میں کئی غیرسرکاری تنظیمیں، سیاسی پارٹیاں، ٹریڈ یونینز اور عالمگیریت کے مخالف گروپ وحلقے شریک تھے۔ عالمگیریت کے مخالف ایک سرگرم گروپ اتاق کے مطابق سات جرمن شہروں میں اِس تجارتی معاہدے کے خلاف تقریباً ڈھائی لاکھ افراد نے شرکت کی۔
اوقیانوس کے دونوں اطرف کے ممالک کے درمیان تجارتی و سرمایہ کاری معاہدے کے مذاکرات ایک مرتبہ پھر اگلے مہینے اکتوبر میں شروع ہونے والے ہیں۔ امریکی صدر کی خواہش ہے کہ وہ منصبِ صدارت چھوڑنے سے قبل اِس ڈیل کو کوئی حتمی صورت دے دیں۔ اگر ڈیل طے پا جاتی ہے تو دنیا کا سب سے بڑا فری ٹریڈ علاقہ معرضِ وجود میں آ جائے گا جہاں ساڑھے آٹھ سو ملین کنزیومرز ہوں گے۔
بیشتر تجارتی ماہرین اور کاروباری سوداگر بھی اِس ڈیل کے حق میں ہیں۔ کینیڈا کے ساتھ ایک چھوٹے پیمانے پر ڈیل کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور دستخط اکتوبر میں ہو جائیں گے۔ اس ڈیل کو کینیڈا یورپی یونین ٹریڈ ایگریمنٹ قرار دیا گیا ہے۔ ابھی یہ طے نہیں کہ مستقبل میں اوقیانوس کے آرپار کی تجارتی ڈیل طے ہونے پر کینیڈا کا ایگریمنٹ بھی بڑی ڈیل میں شامل کر دیا جائے گا۔
یہ مذاکراتی عمل سن 2013 سے شروع ہے لیکن اِس میں ابھی تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آ سکی ہے۔ اسی تناظر میں جرمنی کے نائب چانسلر اور وزیر اقتصادیات زیگمار گابریل نے دو ہفتے قبل کہا تھا کہ کہ ٹی ٹی آئی پی کی ڈیل ناکامی سے دوچار ہو چکی ہے۔ یہ بھی ایک عام حقیقت ہے کہ جرمن شہریوں میں اِس ڈیل کے بعد کی ممکنہ صورت حال کے بارے میں شکوک و شہبات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔