جرمنی میں تارکین وطن کا دوہری شہريت رکھنے کا مطالبہ
25 اگست 2010جرمنی میں شہری حقوق کی تنظيموں اور اپوزيشن کی بڑی جماعت ايس پی ڈی کا کہنا ہے کہ ملک ميں مقيم تارکين وطن کے بچوں کو بالغ ہوجانے کے بعد بھی اپنی دوہری شہريت برقرار رکھنے کا حق حاصل ہونا چاہيے۔ جرمنی کے وکلاء کی ايسوسی ايشن اور Pro Asyl نامی بين ا لثقافتی تنظيم نے کہا ہے کہ تارکين وطن نوجوانوں پر 18 سے 23 سال کی عمر کے دوران جرمن يا اپنے آبائی ملک کی شہريت ميں سے ايک کا انتخاب کرنے کی جو پابندی ہے وہ غير منصفانہ ہے اور اسے ختم کرديا جانا چاہيے۔
وفاقی پارليمنٹ ميں ايس پی ڈی کے پارليمانی دھڑے نے اس تجويز کا خير مقدم کيا ہے۔ اُس کے، ترک وطن کے امور کے ماہر روڈيگر فيٹ نے کہا کہ تارکين وطن پر دو شہريتوں ميں سے ايک کو منتخب کرنے کا جو جبر ہے وہ اُن کے معاشرتی دھارے ميں شامل ہونے کی راہ ميں رکاوٹ بن رہا ہے۔
جرمنی ميں سن 2000ء ميں شہريت کے قانون ميں جو اصلاحات کی گئيں تھيں اُن کے تحت غير محدود رہائشی پرمٹ رکھنے والے غير ملکيوں کے بچوں کو اپنے والدين کی شہريت کے ساتھ ساتھ خود بخود جرمن شہريت بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ اس قانون کے مطابق يہ غير ملکی بچے جوان ہونے کے بعد 18 سے 23 سال تک کی عمر کے دوران اس بات کے پابند ہيں کہ وہ جرمن يا اپنی غيرملکی شہريت ميں سے کسی ايک کا انتخاب کريں۔
اس اصلاحاتی قانون ميں يہ عبوری ضابطہ بھی شامل تھا کہ جرمنی ميں سن 1990ء کےبعد پيدا ہونے والے غير ملکی بچے بھی، درخواست داخل کرنے پر اپنے والدين کی شہريت کے علاوہ جرمن شہريت بھی حاصل کرسکتے ہيں۔
Pro Asyl تنظيم کے مطابق 1990ء سے سن 2000 ء کے درميان پيدا ہونے والے ايسے غیرملکی بچوں کی تعداد تين لاکھ 85 ہزار ہے جنہيں جرمن يا غير ملکی شہريت ميں سے ايک کے انتخاب کا فيصلہ کرنا ہوگا۔ تنظيم نے انتخاب کے اس جبر کو تارکين وطن کو معاشرتی دھارے سے الگ کرنے کا ايک ذريعہ قرار ديا۔ اُس نے اس طرف توجہ دلائی کہ جرمنی ميں تقريباً 45 لاکھ، دوہری شہريت والے افرد مقيم ہيں ليکن ابھی تک جرمن رياست کو اُن کی وجہ سے کسی مسئلے کا سامنا نہيں کرنا پڑا ہے۔
ايس پی ڈی کے، تارکين وطن سے متعلق امور کے ماہر فيٹ نے کہا کہ اس وقت تارکین وطن کی دوہری شہريت کے بارے ميں جو ضوابط نافذ ہيں وہ صرف ايک سمجھوتہ ہيں کيونکہ اُس وقت برسراقتدار ايس پی ڈی اور گرين پارٹی کی مخلوط حکومت کو، اپنے مستقل دوہری شہريت کے مطالبے کو، کرسچن يونين کی اکثريت والے وفاقی جرمن صوبوں کے نمائندہ ايوان زيريں سے منوانے ميں کاميابی نہيں ہو سکی تھی۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: شادی خان سیف