جرمنی: تارکین وطن کے لیے نرم قوانین، بارہ لاکھ کارکن درکار
10 مئی 2019تاریخی طور پر یہ بات سچ ہے کہ جرمنی نے آج تک خود کو کوئی ایسا ملک سمجھا ہی نہیں، جہاں دیگر ممالک سے آنے والے تارکین وطن بڑی تعداد میں آباد ہوتے رہے ہوں۔ اب لیکن صورت حال تیزی سے بدل رہی ہے اور جرمن ریاست اور حکمرانوں کو بھی یہ احساس ہوتا جا رہا ہےکہ مستقبل میں ملکی اقتصادی ترقی کی رفتار کو قائم رکھنا دو وجوہات کے باعث مشکل تر ہو جائے گا: ایک تو یہ کہ ملک میں بچوں کی شرح پیدائش بہت کم ہے اور معاشرے میں بزرگ شہریوں کا تناسب بھی مسلسل زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ جرمن معیشت کو اس وقت کم از کم بھی مزید 1.2 ملین ماہر کارکنوں کی ضرورت ہے اور اس کے لیے تارکین وطن پر ہی انحصار کرنا ہو گا۔
جرمنی کا سب سے ’بوڑھا‘ شہر
اس طرح کے حالات کی ایک مثال جرمنی کے مشرقی صوبے تھیورنگیا کا چھوٹا سا شہر زُوہل ہے، جو وفاقی صوبے ہیسے کے سرحد کے قریب واقع ہے۔ قریب تین عشرے قبل دیوار برلن کے گرائے جانے کے بعد سے اب تک اس شہر کے ایک تہائی باسی وہاں سے رخصت ہو چکے ہیں۔ اب وہاں صرف 35 ہزار افراد رہتے ہیں، جن کی اکثریت بزرگ شہریوں پر مشتمل ہے۔ زُوہل میں اس وقت عام شہریوں کی اوسط عمر 50 سال سے زائد بنتی ہے اور یوں یہ شہر جرمنی کا، اگر کہا جا سکے، تو اپنی آبادی کی وجہ سے ’سب سے بوڑھا شہر‘ ہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں بزرگ شہریوں کی پینشنیں کم ہیں، بوڑھے شہریوں کی دیکھ بھال کے لیے طبی شعبے کے کارکنوں کی سخت کمی ہے اور اپنے اپنے شعبے کے ماہر کارکن بھی مناسب قرار دی جا سکنے والی تعداد میں مقامی طور پر دستیاب نہیں ہیں۔ اب ایک تجرباتی منصوبے کے تحت تھیورنگیا کے ایوان صنعت و تجارت کی مدد سے شہر زُوہل کی انتظامیہ نے پروگرام بنایا ہے کہ ماہر کارکنوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے نوجوان ویت نامی کارکنوں کی مدد لی جائے۔
رہائش بھی، پیشہ ورانہ تربیت بھی
تھیورنگیا میں جو نوجوان ویت نامی کارکن آئے ہیں، انہی میں سے ایک کارکن کاؤ کوآنگ تروآنگ ہیں، جو گزشتہ آٹھ ماہ سے جرمنی میں ہیں۔ وہ تعمیراتی شعبے کے ایک ماہر کارکن کے طور پر پیشہ ورانہ تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ یہ 22 سالہ ویت نامی شہری اس بات پر بہت خوش ہیں کہ انہیں جرمنی آ کر پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا، جس کے بعد جرمنی میں ان کا کیریئر بھی یقینی ہو گا اور وہ یہاں مستقل رہائش بھی اختیار کر سکیں گے۔
وہ کہتے ہیں، ’’مجھے سب سے زیادہ خوشی اپنے کام کے ساتھیوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ کبھی کبھی کام بہت سخت اور زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن پھر ہم سب مل کر ہنستے ہیں اور مجھے ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ایک نیا جوش و جذبہ ملتا ہے۔‘‘
جس کے پاس کام ہے، وہ آ جائے
جرمنی میں ایسے غیر ملکیوں کی تعداد تقریباﹰ 11 ملین ہے، جو جرمن شہری تو نہیں ہیں لیکن یہاں قانونی طور پر رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر سال 10 ہزار سے زائد غیر ملکی جرمن شہریت بھی حاصل کر لیتے ہیں۔
ان اعداد و شمار کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ جرمن ریاست خود کو ماضی میں عام طور پر کوئی ایسا ملک نہیں سمجھتی تھی، جہاں روایتی طور پر بڑی تعداد میں تارکین وطن آ کر آباد ہوتے ہوں، لیکن آج کے جرمنی کا نیا سچ یہ ہے کہ یہ ملک، جو یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، واقعی ایک ’امیگریشن سوسائٹی‘ بن چکا ہے۔
اب جرمنی میں یورپی یونین کے رکن دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر ملکیوں کے علاوہ یورپی یونین سے باہر کی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو بھی خوش آمدید کہا جا رہا ہے، جو یا تو پہلے ہی سے اپنے اپنے پیشہ ورانہ شعبے کے ماہر کارکن ہوتے ہیں یا پھر وہ یہاں آ کر تربیت حاصل کر سکتے ہیں اور اس کے اختتام پر اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز۔
قوانین میں تاریخی نرمی
جرمنی نے اپنے ہاں ماہر کارکنوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے جو نئی قانونی ترامیم کی ہیں، انہیں بہت سے ماہرین ملکی امیگریشن قوانین میں ’تاریخی حد تک نرمی‘ کا نام دے رہے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ جو کوئی بھی تعلیم یافتہ ہو اور مناسب پیشہ ورانہ اہلیت رکھتا ہو، اور جرمن زبان بول سکتا ہو، وہ روزگار کے کسی معاہدے کے بغیر بھی جرمنی آ سکتا ہے اور یہاں آ کر اپنے لیے روزگار تلاش کر سکتا ہے۔ پہلے یہ قانون صرف یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہنر مند کارکنوں پر ہی لاگو ہوتا تھا۔ اب لیکن یہ شرط ختم کر دی گئی ہے۔
اب اس سلسلے میں کلیدی شرائط دو ہیں: ہنر مندی اور جرمن زبان سے واقفیت۔ ایک شرط جو پہلے بھی لاگو ہوتی تھی، اب بھی لاگو ہوتی ہے۔ اس طرح جرمنی آنے والے کسی بھی غیر یورپی غیر ملکی کو روزگار کی تلاش کے عرصے کے دوران اپنے قیام و طعام کا خرچہ خود برداشت کرنا ہو گا اور وہ ریاست کی طرف سے دی جانے والی سماجی مالی مراعات سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔
دوطرفہ فائدہ
برلن میں وفاقی جرمن حکومت نے اس بارے میں مروجہ قوانین میں جو نرمی کی ہے، وہ شروع میں پانچ سال کے تجرباتی عرصے کے لیے ہے اور کامیابی کی صورت میں اس کی مدت میں توسیع کر دی جائے گی۔
دیکھا جائے تو جرمنی میں ماہر کارکنوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے یہ اقدام بھی انتہائی پرکشش ہے کیونکہ یوں دنیا بھر سے لاکھوں کی تعداد میں ایسے ماہر کارکن جرمنی آ سکیں گے، جن کا آنا جرمنی اور خود ان تارکین وطن، دونوں کے لیے مفید ثابت ہو گا۔