جرمنی میں ترک شہری محتاط رہیں، انقرہ کی ہدایت سے نیا تناؤ
9 ستمبر 2017ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول سے ہفتہ نو ستمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق انقرہ میں ترک وزارت خارجہ نے ان ترک شہریوں کو، جو یا تو پہلے سے جرمنی میں رہائش پذیر ہیں یا پھر یورپی یونین کے رکن اس ملک کے سفر کا ارادہ رکھتے ہیں، تنبیہ کی ہے کہ وہ چوبیس ستمبر کو ہونے والے جرمن پارلیمانی انتخابات کی ’کھچاؤ کا شکار‘ سیاسی مہم کے باعث محتاط رہیں۔
ترک وزرات خارجہ کے جاری کردہ ایک بیان میں الزام عائد کرتے ہوئے ہفتے کے روز کہا گیا، ’’جرمنی میں سیاسی رہنما اپنے ہاں عنقریب ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لیے مہم ترکی مخالف سوچ اور ہمارے ملک کی یورپی یونین میں رکنیت کو روکنے کی بنیاد پر چلا رہے ہیں۔‘‘
ساتھ ہی اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے، ’’یہ ملک (جرمنی) گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل بڑھتی ہوئی دائیں بازو کی حتیٰ کہ نسل پرستانہ نوعیت کی بیان بازی کے زیر اثر ہے۔‘‘ بیان کے مطابق ان حالات میں جرمنی میں ترک باشندوں کو ’دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتیاط‘ سے کام لینا چاہیے۔
نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ اسی ترک حکومتی بیان میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ جرمنی میں ’مردم بیزاری اور نسل پرستی‘ کے خلاف عدالتوں کے ذریعے قانونی عمل کا فقدان ہے۔ اس حوالے سے انقرہ میں ملکی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ جرمنی میں ترک شہریوں کی آبادی والے علاقوں میں کچھ عمارات میں آتشزدگی کے جو حالیہ واقعات دیکھنے میں آئے، ان میں سے چند ایک مبینہ طور پر مشتبہ نسل پرستوں کی کارروائیوں کا نتیجہ تھے۔
ترک وزارت خارجہ نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ جرمنی مبینہ طور پر اپنے ہاں دہشت گرد گروپوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔ اس سلسلے میں اس بیان میں کردوں کی ممنوعہ تنظیم کردستان ورکرز پارٹی یا پی کے کے اور امریکا میں مقیم ترک مسلم مبلغ فتح اللہ گولن کے نیٹ ورک کا نام لے کر ذکر کیا گیا ہے۔
ترکی کی مخالفت، جرمن چانسلر ’بے بس‘ ہو گئیں
جرمن سیاستدان نسل پرستی کو فروغ دینے سے خبردار رہیں، ترکی
ایردوآن کی قیادت میں ترکی یورپی یونین میں؟ ’کبھی بھی نہیں‘
ان میں سے پی کے کے کو ترکی اور یورپی یونین نے باقاعدہ طور پر ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے لیکن فتح اللہ گولن کی تحریک پر، جسے انقرہ حکومت دہشت گرد قرار دیتی ہے، یورپی یونین یا ا مریکا میں کوئی پابندی نہیں ہے۔
ترکی اور جرمنی کے مابین اسی دوطرفہ کشیدگی کے تناظر میں کچھ عرصہ قبل جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے بھی جرمن عوام کو ترکی کے سفر کے حوالے سے تنبیہ جاری کی تھی۔ ترکی میں حکام اب تک متعدد ایسے صحافیوں اور انسانی حقوق کے چند ایسے کارکنوں کو حراست میں لے چکے ہیں، جو یا تو جرمن شہری ہیں یا پھر ایسے ترک نژاد باشندے جو جرمنی اور ترکی دونوں ممالک کے شہری ہیں۔