جرمنی میں خواتین پر تشدد کے حیران کن اعداد و شمار
25 نومبر 2021جرمنی میں تقریباﹰ ہر ڈھائی دن بعد ایک خاتون موت کے منہ میں چلی جاتی ہے اور اس واردات کے پیچھے ہاتھ اس کے شوہر، دوست یا پھر سابقہ پارٹنر کا ہوتا ہے۔ خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر یہ اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں۔
جسم فروشی کے خلاف عالمی دن: ’یہ پیشہ نہیں، استحصالی نظام ہے‘
''ایک مرد کا اپنی خاتون پارٹنر کا گلا دبانا، شوہر کی جانب سے بیوی کا شدید استحصال کرنا اور ایک خاتون ڈاکٹر پر اس کے سابقہ ساتھی کا خنجر سے اٹھارہ وار کرنا ‘‘۔ جرمنی میں حالیہ دنوں کے دوران یہ واقعات شہ سرخی بننے۔
ایسی خبریں اس ملک میں خواتین پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کی جانب نشاندہی کرتی ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے ایسے واقعات میں مسلسل اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
گھریلو تشدد میں اضافہ
جرمنی میں جرائم کی تحقیقات کرنے والی وفاقی پولیس (بی کے اے) کی جانب سے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق 2020ء کے دوران تقریباﹰ ایک لاکھ بیس ہزار خواتین اور 29 ہزار مرد تشدد کے متاثرین میں شامل تھے۔ یہ تعداد 2019ء کے مقابلے میں پانچ فیصد زیادہ ہے۔
خواتین پر تشدد کے خلاف بل کی اتنی مخالفت کیوں؟
پارٹنر کی جانب سے مار پیٹ گھریلو تشدد کی ایک قسم ہے۔ جنسی استحصال، تعاقب کرنا اور آزادی کو محدود کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ قتل یا قتل کی دھمکی دینا یا قتل کے ارادے سے حملہ کرنا بھی گھریلو تشدد ہی ہے۔
جرمنی میں روزانہ اوسطاﹰ ایک خاتون کو قتل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2020ء میں 139 خواتین اپنے پارٹنر یا سابقہ پارٹنر کے ہاتھوں ماری گئیں۔
'یہ خاندانی المیہ نہیں ہے‘
خاندانی امور کی جرمن وزیر کرسٹینے لامبریشٹ نے ان اعداد و شمار کو دیکھنے کے بعد کہا، ''ہم اجازت نہیں دے سکتے کہ مزید ایسا ہو۔‘‘ انہوں نے اس امر پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ اکثر ایسے جرائم کو معمولی سمجھا جاتا ہے۔
جرمنی میں خواتین کا قتل اور گھریلو تشدد کی شرح بلند
کرسٹینے لامبریشٹ کے بقول،''جب پارٹنر یا سابقہ پارٹنر کی جانب سے اپنی بیوی اور بچوں کو ہلاک کرنے کو خاندنی المیہ قرار دیا جائے، تو یہ سن کر مجھے شدید غصہ آتا ہے۔ یہ فیملی ٹریجیڈی نہیں رہا۔ میں خاندانی المیہ اسے سمجھتی ہوں، جب ماں اور اس کے تین بچے سرطان کی وجہ سے ہلاک ہو جائیں۔ لیکن اگر ایسا پارٹنر کی مار پیٹ کی وجہ سے ہوتا ہے تو اسے تشدد کے علاوہ کچھ اور نہیں کہا جا سکتا۔‘‘
صنف کی بنیاد پر کسی خاتون کو قتل کرنے کو 'فیمیسائڈ‘ کہتے ہیں اور جرمنی میں یہ اصطلاح کافی زیادہ استعمال ہو رہی ہے۔ جرمنی میں جرائم کی تحقیقات کرنے والی وفاقی پولیس کے مطابق اس طرح کے واقعات کی تعداد میں معمولی سا اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ اس سلسلے میں اب تک قتل کے سب سے زیادہ واقعات 2016ء میں رونما ہوئے، جن کی تعداد 155 بنتی ہے۔
صنفی عدم مساوات
سماجی علوم کی ماہر مونیکا شوروٹل کہتی ہیں کہ گزشتہ بیس برسوں کے دوران ہونے والی پیش رفت کے باوجود خواتین کے خلاف تشدد کو کم کرنا ممکن نہیں ہو سکا ہے۔
تیگرائے جنگجوؤں نے بچوں کی موجودگی میں ماؤں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''صنفی عدم مساوات کی صورتحال تبدیل نہ ہونا بھی ایک وجہ ہے۔ اتنے طویل عرصے تک خاتون چانسلر رہنے کے باجود بھی خواتین اور مردوں کو برابر نہیں سمجھا جاتا۔ یعنی یکساں برتاؤ نہیں کیا جاتا۔‘‘
تاہم انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں بہتری کا امکان بدستور موجود ہے۔
رالف بوزین (ع ا/ش ح)