جرمنی میں شامی ڈاکٹر پر انسانیت کے خلاف جرم کرنے کا مقدمہ
28 جولائی 2021جس شامی ڈاکٹر پر وفاقی دفتر استغاثہ نے فرد جرم عائد کی ہے، وہ سن 2015 میں مہاجرت اختیار کر کے جرمنی منتقل ہو گیا تھا۔ اس ڈاکٹر نے انسانیت سوز مظالم کا ارتکاب شام کے مغربی شہر حمص اور دارالحکومت دمشق کے دو فوجی ہسپتالوں اور جیل میں کیا تھا۔ دونوں ہسپتالوں اور جیل کا انتطام صدر بشار الاسد کی حامی فوج کے انٹیلیجنس ونگ کے کنٹرول میں تھا۔
جرمنی اور شام کے تعلقات کی پیچیدگیاں
جرائم کا ارتکاب
شامی ڈاکٹر نے دمشق اور حمص کے ساتھ ساتھ ایک جیل میں کم از کم اٹھارہ افراد پر کلینیکل ٹارچرز کیے تھے۔ جن پر مظالم کیا گیا، وہ اسد حکومت کے مخالفین تھے اور انہیں فوج کے خفیہ ادارے نے اپنی تحویل میں رکھا ہوا تھا۔
جیل اور اسپتالوں کا انتظام شامی فوج کی خفیہ ایجنسی کے ایسے اہلکاروں کے پاس تھا جو شبے کی بنیاد پر اسد حکومت کے مخالفین کو گرفتار کر کے انہیں تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔
شامی ڈاکٹر نے ایک مریضوں کو انتہائی مہلک انجیکشن لگا کر اسے ابدی موت کی نیند سلا دیا تھا۔ اس کے علاوہ اس نے ایک اور شخص کے چہرے پر کوئی ایسی زور دار شے ماری کہ وہ اچانک مرگی کا دورہ پڑنے سے مر گیا اور اس کی موت کی وجہ بھی معلوم نہیں کی ہو سکی۔
جرمنی بشار الاسد کو جنگی جرائم کا مجرم کیسے ٹھہرا سکتا ہے؟
اس ڈاکٹر نے یہ ٹارچر سن 2011 اور 2012 میں اپنی تعیناتی کے دوران کیے تھے۔ اس ڈاکٹر کے مظالم کی تمام تفصیل عدالت میں بھی پیش کی جائے گی اور یہ سب فرد جرم میں بھی شامل ہیں۔
شامی ڈاکٹر کی گرفتاری
شام میں حکومت مخالفین کو طبی ٹارچر کا نشانہ بنانے والا ڈاکٹر سن 2015 میں مہاجرت اختیار کر کے جرمنی پہنچا تھا اور اپنی تعلیمی استعداد پر اسے ایک ہسپتال میں ملازمت بھی دے دی گئی تھی۔
اس کے بارے میں ابتدائی معلومات حاصل ہونے کے بعد چھان بین کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ مکمل تفتیشی عمل کی تکمیل پر اس ڈاکٹر کو جون سن 2020 میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنی تحویل میں لے لیا اور وہ ابھی تک حراست میں ہے۔ اب دفتر استغاثہ کی فرد جرم عائد ہونے کے بعد اس پر باقاعدہ مقدمہ شروع ہونے کا امکان ہے۔
ٹارچر کرنے والے شامی اہلکار انصاف کے کٹہرے میں
شام میں جاری مسلح تنازعے کو ایک دہائی ہو گئی ہے۔ اس عرصے میں وہاں ہونے والے جنگی جرائم کی تفصیلات منظر عام پر آتی جا رہی ہیں۔ جرمنی میں ایسے جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے شامی حکومت کے سابق اہلکاروں پر مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔
حکومتی سرپرستی ميں تشدد کرنے والے بالآخر انصاف کے کٹہرے ميں
رواں برس کے اوائل میں کوبلنز شہر کی ایک اعلیٰ عدالت نے اپنے ایک تاریخی فیصلے میں ایاد اے نامی شامی انٹیلیجنس ایجنسی کے ایک اہلکار کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے کر ساڑھے چار برس کی سزائے قید سنائی تھی۔ ایاد اے کم از کم تیس جنگی جرئم کا مرتکب یا ان میں سہولت کار پایا گیا تھا۔ اسے عالمی قوانین کے تحت سزا سنائی گئی تھی۔
ایاد کے علاوہ جرمنی میں شامی فوج کے انٹیلیجنس ونگ کے ایک کرنل انور آر کو بھی عدالتی کارروائی کا سامنا ہے۔ انور آر بدنام زمانہ شامی جیل 251 میں تفتیش کار تھا۔ اس پر چار ہزار افراد پر تشدد اور ٹارچر کے الزامات ہیں۔
ع ح / ع ب (ڈی پی اے)