جرمنی میں شرح پیدائش میں ریکارڈ کمی
13 نومبر 2010قریب 83 ملین کی آبادی والے ملک جرمنی میں شرح پیدائش میں مسلسل کمی کی وجہ سے اوسط عمر میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس صورتحال کو یورپ کی اس سب سے بڑی معیشت کی شرح نمو کے لئے شدید خطرے سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران شرح پیدائش میں ہونے والی ریکارڈ کمی کے باعث جرمنی میں یہ خلاء تب تارکین وطن کو بلا کر پر کیا گیا تھا تاہم اب جبکہ جرمنی میں غیر ملکی تارکین وطن سے متعلق سخت ضوابط موجود ہیں، یہ صورتحال خاصی تشویشناک سمجھی جا رہی ہے۔
جرمن شہر ویزباڈن میں قائم وفاقی دفتر شماریات کے مطابق گزشتہ برس جرمنی میں مجموعی طور پر چھ لاکھ 65 ہزار ایک سو 26 بچے پیدا ہوئے جبکہ سن 2008ء میں یہ تعداد چھ لاکھ 82 ہزار پانچ سو 14 تھی۔ دفتر شماریات کے مطابق اگر سالانہ بنیادوں پر دیکھا جائے تو گزشتہ دس برسوں میں جرمنی میں بچوں کی پیدائش میں ایک لاکھ کی کمی ہوئی ہے۔ سن 1999ء میں جرمنی میں مجموعی طور پر سات لاکھ 70 ہزار سات سو 74 بچے پیدا ہوئے تھے۔
ویزباڈن کے اس وفاقی دفتر کے مطابق سن 2009ء میں پیدا ہونے والے بچوں کی مجموعی تعداد دوسری عالمی جنگ کے اختتام یعنی سن 1945ء میں پیدا ہونے والے بچوں کی کُل تعداد کے بعد سب سے کم رہی ہے۔ سن 1945ء میں جرمنی میں مجموعی طور پر پانچ لاکھ 20 ہزار بچے پیدا ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ یورپ بھر میں جرمنی سب سے کم شرح پیدائش والے ممالک میں سرفہرست ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بچوں کی پیدائش کی شرح میں یہی کمی جاری رہی تو سن 2050ء میں جرمنی کی کل آبادی کم ہو کر 50 ملین تک رہ جائے گی۔
انہی خدشات کو دیکھتے ہوئے سن 2007ء میں جرمن حکومت کی طرف سے Elterngeld یا ’والدین کے لئے رقم‘ کے نام سے ایک پروگرام بھی شروع کیا گیا تھا، جس کے تحت ملازمت پیشہ جوڑوں کو کسی بچے کی پیدائش پر کئی ماہ تک مالی مدد فراہم کی جاتی ہے۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: مقبول ملک