جرمنی میں مساجد پر حملوں میں کمی
2 اپریل 2019جرمن حکام نے تصدیق کی ہے کہ2017ء کے مقابلے میں 2018ء کے دوران مسلمانوں اور مساجد پر حملوں میں نمایاں طور پر کمی آئی ہے۔ جرمن وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار نیو اوسنابروکر سائٹنگ نے لکھا ہے کہ گزشتہ برس 813 جبکہ 2017ء میں اسلام مخالف 950 حملوں کی رپورٹ درج کروائی گئی ۔
تاہم دوسری جانب ان حملوں میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 32 سے بڑھ کر 54 ہو گئی ہے۔ ساتھ ہی حکومت نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ رپورٹ درج کرانے میں سستی یا تاخیر کی وجہ سے ایسے واقعات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
ملک میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کا بھی کہنا ہے کہ اس طرح کے جرائم کی تعداد حقیقتاً کہیں زیادہ ہو سکتی ہے ۔ یہ اعدادو شمار بائیں بازو کی لیفٹ پارٹی کی جانب سے پارلیمان میں پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں جاری کیے گئے ہیں۔
حکام کا خیال ہے کہ اس طرح کے تمام حملوں کے پیچھے دائیں بازو کے شدت پسندوں کا ہاتھ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق مسلم برادری کے خلاف کیے جانے والے جرائم کے دوران مساجد پر نازی علامتی نشانات بنائے گئے، مسلمانوں کو دھمکی آمیز خطوط بھیجے گئے، ان کے ساتھ بدکلامی کی گئی، املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور نفرت کا اظہار کیا گیا۔
جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے رہنما ایمن مازییک نے برلن حکومت سے ایک نمائندہ تنظیم بنانے کا مطالبہ کیا ہے، جو مسلم برادری کے خلاف رونما ہونے والے ان واقعات کا جائزہ لے سکے۔ ان کے بقول نفرت انگیزی پر مبنی حملوں میں کمی کی ایک وجہ مسلم مہاجرین کی جرمنی آمد میں کمی بھی ہے۔