جرمنی میں مسلم آرٹسٹ نے نئی تاریخ رقم کر دی
6 دسمبر 2024دلچسپ بات یہ ہے کہ محبوبہ مقصودی کو اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ وہ جرمنی کے خصوصی کرسمس اسٹیمپ کے لیے منتخب ہونے والی پہلی خاتون ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹیم نے جب ان سے ملاقات کی تو وہ میونخ میں اپنے اسٹوڈیو میں رنگا رنگ فن پاروں کے درمیان بیٹھی تھیں۔ اس سال کے خصوصی کرسمس اسٹیمپ پر اپنے فن پارے کو شامل کیے جانے پر انہوں نے کہا،'' مجھے خوشی اور فخر محسوس ہو رہا ہے۔‘‘
مقصودی کا کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ اپنے فن کے ذریعے لوگوں کو سوچنے اور غور و فکر کی ترغیب دینا چاہتی ہیں۔ ان کے بقول، ''اُنہیں خوشی ہو گی اگر یہ اسٹیمپ لوگوں کو دوبارہ روحانیت، قدرت ، فردوسی نور کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرے۔‘‘
جرمن ڈاک سروس، ڈوئچے پوسٹ، نے 1969 میں کرسمس اسٹیمپ کا اجرا شروع کیا تھا۔ تب سے لے کر اب تک کسی خاتون یا معاصر زندہ فنکار کے فن پارے کو کبھی بھی ان اسٹیمپس پر نہیں چھاپا گیا تھا۔
ذاتی المیہ، ہرات افغانستان میں قتل
محبوبہ مقصودی کی عمر 67 برس ہے ، وہ افغانستان کے مغربی شہر ہرات میں پیدا ہوئیں۔ بالغ ہونے کے بعد، انہوں نے ہرات میں ایک سیکنڈری اسکول کی ٹیچر کے طور پر کام کیا۔ ان کی بہن عفیفہ، جو شہر میں لڑکیوں کے سب سے بڑے اسکول کی ہیڈ مسٹریس تھیں، 1979 میں انہیں ایک شدت پسند نے سڑک پر گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔
افغانستان کی پہلی خاتون میئر کے لیے جرمنی کا لوتھر پرائز
افغان خاتون دھمکیوں کے باوجود ٹیٹو بنانے میں مصروف
اس واقع کے بعد مقصودی اپنے شوہر فضل مقصودی کے ساتھ لینن گراڈ (جو اب سینٹ پیٹرسبرگ کہلاتا ہے) منتقل ہو گئیں، جہاں انہیں آرٹ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکالرشپ ملی ۔ گریجویشن کے بعد افغانستان میں جاری خانہ جنگی کے سبب وہ وطن واپس نہ جا سکیں۔
محبوبہ مقصودی، 1994 میں شوہراور دو چھوٹے بیٹوں کے ساتھ بطور پناہ گزین میونخ پہنچیں، جہاں انہیں جلد ہی پناہ دے دی گئی۔ وہ طویل عرصے سے جرمن شہری ہیں، لیکن وہ کہتی ہیں کہ ان کی ذات اور فن کا گہرا تعلق افغانستان سے ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''میرا بچپن اور ابتدائی عمر کے تجربات میرے فن کی اساس ہیں۔‘‘
میونخ میں، شیشے کے کام کے ماہرین کو مقصودی کے فن نے متاثر کیا اور انہوں نے مقصودی کو کلیساؤں کے لیے شیشے کی کھڑکیاں ڈیزائن کرنے کی پیشکش کی۔ ریاست زارلینڈ میں واقع تیرہویں صدی میں تعمیر ہونے والی اورجرمنی کی قدیم ترین خانقاہ تھولے بینڈکٹائن ایبے ہے۔ اس خانقاہ سے منسلک چرچ کی سب سے اہم خصوصیت اس کی شیشے کی کھڑکیاں ہیں۔ ان میں تین کھڑکیاں جرمنی کے مشہور آرٹسٹ گیرہارڈ رِشٹر نے ڈیزائن کیں، جبکہ مقصودی نے 29 کھڑکیاں تیار کیں۔
محبوبہ مقصودی کے فن کے رنگ چرچ کے مرکزی حصے میں غالب ہیں۔ انہوں نے امریکہ کی مختلف ریاستوں (ٹینیسی، ٹیکساس، نیبراسکا) اور آسٹریا کے ایک چرچ کے لیے پہلے بھی شیشے کی کھڑکیاں ڈیزائن کی تھیں۔ تھولے ایبے چرچ کی کھڑکیوں کے منصوبے کی تکمیل سے پہلے وہ جرمنی میں زیادہ مشہور نہیں تھیں مگر اب انہیں دیگر کلیساؤں اور مذہبی اداروں کے لیے شیشے کی کھڑکیاں تیار کرنے کے آرڈرز بھی دیے جا رہے ہیں۔
روحانیت ، قدرتی روشنی، فردوسی نور
محبوبہ مقصودی ایک مسلم اور انسان دوست فنکارہ ہیں۔ وہ تمام مذاہب کے لوگوں کے لیے آرٹ تخلیق کرتی ہیں۔ ان کے لیے تھولی ایبے چرچ سیریز کی ''کرسمس ونڈو‘‘ جومحض پانچ سال پرانی ہے، فردوسی نور کی عکاسی کرتی ہے۔ اسی کھڑکھی کی تصویر رواں برس خصوصی کرسمس ڈاک ٹکٹ کے لیے منتخب کی گئی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ فنکار کو اظہار کی مکمل آزادی حاصل ہونی چاہیے۔
جرمنی کی وفاقی وزارت خزانہ کے پاس 1995 سےان ڈاک ٹکٹوں کو سرکاری طور پر جاری کرنے کا اختیار ہے۔ پروٹسٹنٹ چرچ اور کیتھولک چرچ باری باری ہر سال وزارت کو ایک موٹیف یا ڈیزائن تجویز کرتے ہیں۔ دو سال پہلے چرچ نے محبوبہ مقصودی سے رابطہ کیا اور تھولی کی ''کرسمس ونڈو‘‘ کو تصویر کے طور پر تجویز کرنے کی اجازت مانگی تھی۔
افغان خاتون سیما غنی کا منفرد اعزاز
تعلیم حاصل کرنے کے لیے پر عزم افغان خاتون
چار میٹر سے بھی بلند ونڈو کی اس بڑی تصویر کو گرافک ڈیزائنرز سوزانے وسٹمن اور ڈیٹر زیگن فوئیٹر نے ڈاک ٹکٹ کے سائز میں تبدیل کیا۔ مقصودی کا فن چھوٹے ڈاک ٹکٹ کے فارمیٹ میں بھی واضح ہے کیونکہ وہ ہمیشہ مختلف زاویوں کو ذہن میں رکھ کر کام کرتی ہیں تاکہ ان کے کام کو قریب اور دور سے دیکھنے والوں پرفن کا سحر برقرار رہے ۔
گزشتہ دس برسوں میں خصوصی کرسمس ڈاک ٹکٹ کی گردش 20 سے 40 لاکھ کے درمیان رہی ہے۔ آرٹسٹ نے کہا شاید وہ تھولی بھی آئیں اور آرٹ ورکس کے اس سلسلے ، ونڈوز کی مکمل شان و شوکت کو دیکھیں اور ان سے متاثر ہوں۔
مقصودی پُر امید ہیں کہ ان کی زندگی اور کام جرمنی میں حال ہی میں آنے والے نوجوان فنکاروں، خاص طور پر جنگوں اور دیگر بحران زدہ علاقوں سے ہجرت کرنے والوں کے لیے ایک تحریک بنے۔ وہ کہتی ہیں کہ کئی ثقافتوں سے شناسا ہونا اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کرنا ایک نعمت ہے۔ وہ کہتی ہیں ،''فن میری زبان اوراظہار کا ذریعہ ہے، اپنی اس طاقت کی بدولت میں کبھی مایوس نہیں ہوئی۔‘‘
کرسٹوف اشٹراک/ ح ا/ ک م