جرمنی میں مہاجرین کے لیے بڑے شہر پرکشش
11 جولائی 2016جرمن نیوز ایجنسی ای پی ڈی کی ہینوور سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ہجرت اور ترک وطن کے موضوع پر تحقیق کرنے والے ایک جرمن ماہر یوخَن اولٹمر کا کہنا ہے کہ جرمنی میں موجود مہاجرین اور تارکین وطن بڑے شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔
یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے
ہزاروں پناہ گزین اپنے وطنوں کی جانب لوٹ گئے
اس رجحان میں اضافے کے باعث اولٹمر جرمنی کے بڑے شہروں میں مقامی حکومتی اداروں کو خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہیں اس امر کا یقین ہونا چاہیے کہ ’بہت جلد ان شہروں میں جرمن نسل کی مقامی آبادی ہی اکثریت میں نہیں ہو گی بلکہ مستقبل میں ان بڑے شہروں کی زیادہ تر آبادی (کثیرالنسلی برادریوں پر مشتمل) کئی متنوع اقلیتی گروپوں پر مبنی ہو گی‘۔
کئی سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی شہر جتنا بڑا ہوتا ہے، اتنی ہی زیادہ اس کا رخ کرنے والے غیر ملکیوں کی تعداد بھی ہوتی ہے۔ شمالی جرمن شہر اوسنابروک میں مہاجرت اور بین الثقافتی علوم کے انسٹیٹیوٹ سے وابستہ مؤرخ پروفیسر اولٹمر نے ای پی ڈی کو بتایا کہ تارکین وطن اکثر بڑے شہروں کا رخ اس لیے کرتے ہیں کہ یہ شہر جدت پسندی کے علاوہ اقتصادی گہما گہمی کے مراکز بھی ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے غیر ملکیوں کے لیے وہاں روزگار کی منڈی تک رسائی کے امکانات بھی ہمیشہ زیادہ ہوتے ہیں۔
ایک جائزے کے مطابق جرمن شہر فرینکفرٹ میں، جو ملک کا پانچواں بڑا شہر ہے اور جس کی آبادی سات لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے، چھ سال سے کم عمر کے بچوں میں سے 80 فیصد غیر ملکیوں یا تارکین وطن کے پس منظر کے حامل ہیں۔
یوخَن اولٹمر (Jochen Oltmer) کے مطابق بڑے جرمن شہروں کی آبادی میں اپنی اکثریتی حیثیت برقرار رکھنے کے خواہش مند مقامی جرمن باشندوں کی کوششوں کے باوجود اس قدرتی پیش رفت کو اب تک روکا نہیں جا سکا۔ انہوں نے کہا، ’’اسی وجہ سے عام طور پر جرمنوں کے رد عمل کا نتیجہ غیرملکیوں سے نفرت اور ان کے بارے میں امتیازی رویوں کی صورت میں دیکھنے میں آتا ہے۔‘‘ اولٹمِر کے مطابق ان حالات میں غیر ملکیوں میں بھی منفی سوچ کی طرف مائل ہونے کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔
پروفیسر اولٹمر کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے بہتر تعلیم کے مواقع کی فراہمی بھی بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اچھی تعلیم کے حصول کے بعد منفی سماجی رویوں یا بنیاد پرستانہ نظریات کی جانب راغب ہونے کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے۔ یہی وہ بڑا اور مثبت ہتھیار ہے، جس کے ساتھ روزمرہ زندگی میں نسل پرستانہ رویوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘